کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 298
ذات مطہرہ کےمتعلق یاوہ گوئی سے باز نہیں رہتا ، اس سے توقع ہی فضول ہےکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اطہر پر قائم ہونے والے وطن کے بارہ میں اچھے جذبات رکھے گا اور ایسی فضا پیدا کرنے سے گریز کرے گا جس سے ملک کے امن وامان کے تہ بالا ہوجانے کا خدشہ پیدا ہوتاہو اور لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں، بلکہ یسے لوگوں کی توخواہش یہی یہی ہوتی ہے کہ ملک کی فضاء ( خاکش بدہن ) ہمیشہ مکدر ہے، تاکہ حکومت کوملک کی سلامتی ا ور ترقی کی طرف توجہ کرنے کا موقع ہی نہ ملے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کی قومی وملی حکومت کوخود مسلمانوں سے بھڑایاجائے اور اس طرح عوام کوحکومت سےمتنفر کرکے ملک میں افراتفری پیدا کی جائے جس سے اسلامی قوتیں اور طاقتیں کمزور ہوں اور خود انہیں پنپنے اور پھلنے پھولنے کے مواقع مل جائیں اور اس کی صورت یوں ہوکہ جب مسلمانوں کے کسی مسلمہ عقیدے یا کسی محترم ہستی پر چھینٹے دیے جائیں اور جس مسلمان اس پر برافروختہ ہوں توقانون اور امن کے نام پر حکومت کوانگیجٹ کی جائے ، چنانچہ آئے دن ایسے لوگوں کےاخبارات اور رسائل ایسی ہی تحریریں شائع کرتے اور ان کے” بڑے “ اپنی تقریروں اور جلسوں میں اس کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح کی ایک تحریر حال ہی میں ایک مرزائی پرچہ میں شائع ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کے ایک انتہائی محترم ومعظم اور صف اول کے نامور عالم کے خلاف دریدہ ذہنی نہیں بلکہ وشنام طرازی کی گئی ہے ،اس میں ایک مرزائی نورالدین بھیروی اور ضیغم ملت مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ کا موازنہ کیا گیاہے کہ : ” ایک ( یعنی نورالدین ) نے اپنے ” نور ایمان “ سے مرزائے قادیانی کومان لیا اور دوسرے ( مولانامحمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ علیہ) نے اپنی ”بے بصیرتی“ سے تسلیم