کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 297
فتنہ پرور ہم متعدد بار ان کالموں میں اس بات کا ذکر کرچکے ہیں کہ اس اسلامی ملک پاکستان میں کسی فرقہ کواس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی دل آزاری کرے۔ا ن کے معتقدات اور مقدسات پرحملہ کرے،ان کے اکابر کی عزتوں سے کھیلے اور ان کے بزرگوں پر کیچڑ اچھالے ،کیونکہ جس وقت کسی بھی فرقہ اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مسلمانوں کے کسی عقیدے یا مسلمانوں کی کسی بزرگ شخصیت پر زبان درازی کرتے ہیں تو وہ براہ راست اسلام اور شریعت محمدی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ایک مسلمان ملک میں اسلام پر نقد وجرح اور مسلمانوں کی تنقیص وتوہین کرنے والوں کےلیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے ۔ا س موضوع پر ائمہ کرام نے کتب فقہ میں مستقل ابواب لکھے ہیں اور کئی نے اس مسئلہ پر مبسوط ا ور مفصل کتابیں اور رسائل ترتیب دیے ہیں، کیونکہ وہ شخص جس سے ایک مسلم اور اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے مسلمانوں کی آبرو اور اسلام کی عزت محفوظ نہیں اس سے یہ توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی ریاست اور ان کے قائم کردہ ملک ووطن کاوفادار اور فرمانبردار اورا س کی سالمیت اور بقاء کا طلب گار اور خواہش مند ہوگا ،کیونکہ اس کی ساری ہمدردیاں اور خیر خواہیاں اس کے ساتھ وابستہ ہوں گی جواس کے مفادات ومطالبات کوپورا کرتا ہے اور اس کی مقصد براری میں اس کا ہاتھ بٹاتا ہے خواہ ملک ووطن کا بدخواہ اور خواہ وہ اہل کا دمن ۔ا یسے لوگ صرف اپنے اہداف اور اپنی اغراض کے غلام ہوتے ہیں ا ور ان اغراض واہداف کےحصول کی خاطر وہ ادنیٰ سے ادنیٰ کام کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ۔جوشخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی گرامی اور ذات مطہرہ کے