کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 256
ہیں۔ وہ سرور اور لذت جوحضرت مسیح موعود ( مرزا) کے الہاموں کوپڑھنے سےحاصل ہوتی ہے کسی اور کتاب کو پڑھنے سے نہیں ہوسکتی ۔ جوان الہاموں کو پڑھے گا وہ کبھی مایوسی اور ناامیدی میں نہ گرے گا،مگر جوپڑھتا نہیں یا پڑھ کر بھول جاتاہے ،خطرہ ہے کہ اس کا یقین اور امید جاتی رہے ۔وہ مصیبتوں اور تکلیفوں سے گھبراجائے گا، کیونکہ وہ سرچشمہ امید سے دو ر ہوگیا۔ پس حقیقی عید سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود (غلام قادیانی) کے الہامات پڑھے “[1] اور خود مرزاغلام قادیانی اپنی وحی کاذکرکرتے ہوئے کہتا ہے : ” اور خدا کاکلام اس قدر مجھ پر نازل ہوا ہے ،کہ اگر وہ تمام لکھاجائے توبیس جزوسے کم نہیں ہوگا“[2] اور اسی بناء پر مرزائی یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ ان کا ایک الگ اور مستقل دین ہے، اور ان کی شریعت، شریعت مستقلہ ہے ۔ نیز غلام احمد کے ساتھی صحابہ کی مانندہیں اور اس کی امت ایک نئی امت ہے ،نانچہ مرزائی اخبار " الفضل " نے ایک بڑا مفصل مقالہ شائع کیا، جس میں تھا کہ : ”اللہ تعالیٰ نے اس آخری صداقت کو قادیان کے ویرانہ میں نمودار کیا اور حضرت مسیح موعود (غلام قادیانی) کو جوفارسی النسل ہیں اس اہم کام کے لیے منتخب فرمایا اور فرمایا میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچادوں گا ۔ا ور حملہ آوروں سے تیری تائید کروں گا اور جو دین تولے کرآیاہے اسے تمام دیگر ادیان پر بذریعہ دلائل وبراہین غالب کروں گا اور اس کا غلبہ دنیا کے آخر تک قائم رکھوں گا ۔“[3]