کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 252
کوعدل وحکم مان لیا اورجس حدیث کوآپ ( مرزا غلام احمد) نے صحیح کہا وہ ہم نے صحیح سمجھی اور جسے آپ نے متشابہ قرار دیاا سے ہم نے حکم کے تابع کرلیا اور جس حدیث کے بارے میں فرمایا ۔ یہ چھوڑدینے کے قابل ہے وہ چھوڑی،کیونکہ حدیث توراویوں کے ذریعے ہم تک پہنچی اور ہم کومعلوم نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درحقیقت کیافرمایا مگرخدا کا زندہ روسول ( غلام قادیانی ) جوہم میں موجودتھا،اس نے خدا سے یقینی علم پاکر امر حق پر اطلاع دی اور جب وہ اتباع کامل نبوی سے نبی ہوا توہم نے مان لیا کہ آپ کے قول وفعل کےخلاف اگر کوئی حدیث بیان کی جائے توہم اسے قابل تاویل سمجھیں گے ،ا س لیے کہ جوباتیں ہم نے مسیح موعود( غلام احمد ) سے سنیں ،وہ اس راوی کی روایت سے زیادہ معتبر ہیں جسے حدیث نبی بتایاجاتاہے ۔“ [1] اور مزرا کے دوسرے خلیفہ اور غلام احمد کے فرزند مرزا محمود نے توقادیان میں خطبہ دیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں یہاں تک کہہ دیا: پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب کوئی نبی آجائے توپہلے نبی کا علم بھی اس کے ذریعہ ملتاہے ، یوں اپنے طور پر نہیں مل سکتا اور ہر بعد میں آنے والا نبی پہلے نبی کے لیے بمنزلہ سوراخ کے ہوتاہے ۔ پہلے نبی کے آگے دیوار کھینچ دی جاتی ہے اور کچھ نظر نہیں آتا سوائے آنے والے نبی کے ذریعہ دیکھنے کے، یہی وجہ ہے کہ اب کوئی قرآن نہیں سوائے اس قرآن کے جوحضرت مسیح موعود (غلام قادیانی) نے پیش کیا،ا ور کوئی حدیث نہیں سوائے اس حدیث کے جوحضرت مسیح موعود کی روشنی میں نظر آئے اور کوئی نبی نبی نہیں سوائے اس کے جو