کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 244
حالانکہ اس کج فہم کویہ بھی علم نہ ہوسکا کہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بیماریوں کی نشاندہی فرماکر ا ن کاعلاج تجویز کردیاہے،اس لیے اب کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ،کہ وہ آئے اور امراض کی تشخیص وعلاج کرے ۔
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان گرامی کا بھی یہی معنی ہے
کانت بنوااسماعیل تسوسھم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفه نبی اخر وانه لانبی بعدی وسیکون الخلفاء فیکثرون۔ [1]
”کہ بنی اسرائیل کی نگہداشت انبیاء کی ذمہ داری تھی، جب بھی ایک نبی رخصت ہوتا،دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے ،لیکن میرےبعد کوئی نبی نہیں ۔ البتہ میرے نائبین کثرت سے ہوں گے“
”کہ بنی اسرائیل کی نگہداشت انبیاء کی ذمہ داری تھی ، جب بھی ایک نبی رخصت ہوتا،دوسرا اس کی جگہ لےلیتا ،لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ البتہ میری نائبین کثرت سے ہوں گے ۔
یعنی یہ ذمہ داری کہ ہردور میں اسلام کی نشرواشاعت اور دین حنیف کی سربلندی کےلیے کام کیاجائے اور قوم کو ان غلطیوں پر ٹوکاجائے جن پر سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نکیرفرمائی ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےنائبین پر عائد ہوتی ہے، اور آپ کےحقیقی نائبین علماء ہیں جیساکہ بخاری شریف میں ہے ، آپ نے فرمایا :
ان العلماء ورثتہ الانبیاء [2]
علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔
اور رب کریم نے بھی کلام حکیم میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشادفرمایا ہے :
فلولانفرمن کل فرقته منھم لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذارجعوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ [3]