کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 231
ہوسکیں اور پھر ناامیدوں نے ڈیرے ڈال دیے اور وہ اسلام کوزک دینے،سیلاب نو ر کے سامنے بند باندھنے ، سورج کی روشنی ڈھانپنے اور چھپانے سےمایوس ہوگئے ۔ جزیرہ عرب کے مشرکوں ،مصر وشام اور روم ویونان کے عیسائیوں اور قریظہ وخیبر کے یہودیوں نے اس کاخوب خوب تجزیہ کیا اور پھر اس کو اپنے اپنے وقت میں ہندوؤں ، بدھ مت کے پیروؤں ، آتش پرستوں اور سکھوں نے بھی دہرا کر دیکھااور سب نے دیکھ لیاکہ یہ وہ چٹان ہے جسے نہ صرف یہ کہ پاش پاش کرنا ناممکن ہے ، بلکہ اسے چھیدنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ،ان تلخ وترش تجربات سے دشمنان دین نے یہ سبق حاصل کیا کہ اسلام سے کھلے بندوں ٹکرلینا اپنی موت کودعوت دینا ہے کہ ا س سے مسلمانوں کےجذبات کوانگیخت ہوتی ہےا ور ان کی غیرت ووحمیت کوٹھیس لگتی ہے ،اس لیے انہوں نے طے کیا کہ آئندہ کبھی بھی اسلام اورمسلمانوں کوکھلے میدان میں دعوت مبارزت نہ دی جائے بلکہ ہمیشہ اسے مخفی سازش اور پوشیدہ چالوں سے زیر کرنے کی کوشش کی جائے ،دھوکے اور منافقت کی تکنیک کو اپنایاجائے ،ا سلام کے نام لیواؤں میں سے اسلام ہی کے نام پر اسلام کی بیخ کنی کرنے والے تیار کیے جائیں اور اس طرح بتدریج اسلام کے افکار پر چھاپہ مارا جائے،اور اس کی حقیقی تعلیم کومٹایاجائے اور بالآخر اس کے وجود کوختم کردیاجائے ۔ اسی پلان ( plan) اور تخطیط کے تحت قادیانیت کا وجود ردمل میں لایا گیا،چنانچہ پہلے پہل یہ ایک اسلامی فرقے کی حیثیت لوگوں کے سامنے نمودار ہوئی اور بڑی چابک دستی اور ہوشیاری سے اپنے زہریلے افکار وخیالات کا مسلمانوں میں پرچار کرنے لگی کہ عام لوگوں کواس کی اصلیت کاعلم نہ ہوسکا، پھر آہستہ آہستہ اور باقاعدہ ترتیب کے ساتھ کچھ اندرون خانہ باتوں کوسامنے لایاگیا اور جب دیکھا کہ چند ” بے وقوف “اور کچھ ”غرض مند“اچھی طرح جال میں پھنس