کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 228
ستائیسویں شب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں اپنی کتاب ” القادیانیہ “ کومکمل کرکےسویا توکیادیکھتا ہوں ،سحر گاہ دعائے نیم شبی لبوں پر لیے باب جبریل علیہ السلام کے راستے ( کہ دیار حبیب علیہ السلام میں میرا مکان اسی جانب تھا) مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر داخل ہوتاہوں لیکن روضہ اطہر کے سامنے پہنچ کر ٹھٹک جاتاہوں کہ آج خلاف معمول روضہ مصلے کے دروازے واہیں اور پہرے دار خندہ رو، استقبالیہ انداز میں منتظر ہیں ،میں اندر بڑھاجاتا ہوں کہ سامنے سرور کونین ،رحمت عالم محمد اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رعنائیوں اورزیبائیوں کے جھرمٹ میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی معیت میں نماز ادا فرمارہے ہیں ۔ دل خوشیوں سے لبریز اور دماغ مسرتوں سے معمور ہوجاتا ہے اور جب میں دیر گئے باہر نکلتا ہوں تودربان سے سوال کرتاہوں یہ دروازے تم روزانہ کیوں نہیں کھولتے ؟ اور جواب ملتا ہے : ” یہ دروازے روزانہ نہیں کھلا کرتے “ ”یہ دروانے روزانہ نہیں کھاکرتے “ اورآنکھ کھلی تو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے میناروں سے یہ دلکش ترانے گونج رہے تھے ، اشھد ان محمد رسول اللّٰه اشھدان محمدرسول اللّٰه ۔ا ور صبح جب میں نے مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر کوماجرا سنایاتوانہوں نے فرمایا تمہیں مبارک ہو کہ ختم نبوت کی چوکھٹ کی چوکیداری میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے تمہاری کاوش کوپسند فرمالیا ہےا ور کون جانے میرا رب اسے بھی رسالت ماب علیہ السلام کی خدمت شمار فرمالے ۔ کچھ اس کتاب کے بارہ میں ! اس مجموعہ میں سب سے پہلے ایک طویل مضمون ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ مرزائی عقائد اور مسلمان عقائد میں کیا فرق ہے اوربنیادی طور پر مسلمانوں