کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 225
عقائد واعمال سے پوری آگاہی حاصل ہوسکے،چنانچہ دوستوں کی خواہش ، یونیورسٹی کےا ساتذہ کی فرمائش اور وقت کی ضرورت کی بناء پر میں نے وہیں مدینہ منور ہ میں ہی قادیانی ازم پر وربی میں مقالات لکھنے شروع کیے ، لیکن ان میں اس بات کو پیش نگاہ رکھا کہ کوئی بات بے سند اور بے دلیل نہ کہی جائے اور جس بات کاذکر کیا جائے ، اس کا پوراحوالہ دیاجائے ۔
یہ مقالات مختلف عربی پرچوں میں چھپتے رہے اور آخر میں مدینہ منورہ کے ایک پبلشر نے ۱۹۶۷ ء میں انہیں جمع کر کے کتابی صورت میں شائع کردیا۔ للہ الحمد اس کے بیشمار اچھے نتائج برآمد ہوئے ، اور افریقہ میں خصوصاًاس کتاب کی بے حد مانگ رہی ۔ [1]
ان ہی ایام میں افریقہ سے کچھ احباب نے اس طرف توجہ دلائی کہ اگر اس کتاب کاانگریزی ترجمہ ہوجائے تواس کی افادیت بڑھ جائے ،کیونکہ افریقہ میں عربی کی نسبت انفریزی زیادہ سمجھی اور بولی جاتی ہے ۔
چنانچہ اس کتاب کاانگریزی ترجمہ بھی”ادارہ ترجمان السنہ“لاہور نے شائع کردیا اور امید ہے کہ وہ عربی سے کچھ کم مفید نہ ہوگا ۔ [2]
۱۹۶۸ء میں پاکستان واپسی پر میں نے محسوس کیاکہ ہمارے جرائد ومجلات مرزائیت کی طرف اس قدر توجہ نہیں دے رہے جس قدر انہیں دینی چاہیے ، چند ایک حضرات کوچھوڑ کر کسی کویہ بھی معلوم نہیں کہ مرزائی اخبارات مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے بارہ میں کیاکچھ لکھتے اور کس قدر زہر پھیلاتے ہیں ۔