کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 224
غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جوسرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ اور مورد مراحم گورنمنٹ ہے اور یا وہ لوگ جومیرے اقارب یاخدام میں سے ہیں ،ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد علماء کی ہے جنہوں نے میری اتباع میں اپنے وعظوں سے ہزاروں دلوں میں گورنمنٹ کے احسانات جمادیے ہیں “ [1] رہی بات یہودی معاونت ومساعدت کی توخود مرزاغلام احمد کے پوتے مرزامبارک احمد نے اپنی کتاب ،،آورفارن مشنز “ کے صفحہ 68 پرا س کا اعتراف اور اقرارکیا ہے کہ : حیفا کے ماؤنٹ کرمل میں واقع ان کے مرکز کونہ صرف اسرائیلی حکومت ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچاتی ہے ، بلکہ اسرائیل کے سربراہ مملکت سے قادیانی مبلغوں کی ملاقاتیں بھی رہتی ہیں۔ “ ان ہی وجوہ کی بنا پر میں نےآج تقریباً دس برس بیشتر جب کہ میں ابھی معمولی طالب علم تھا۔ قادیانیت کا بغور مطالعہ شروع کیا اور اسی دور میں ان کی تقریباً تمام بنیادی کتابیں دیکھ ڈالیں ۔ نیز اسی زمانہ طالب علمی میں پاکستان وہند کے کئی اردو جرئد میں ان مقالات بھی لکھے اور جب 64ءمیں مجھے اسلامک یونیورسٹی مدینہ منورہ جانے کا اتفاق ہوا تووہاں مختلف ممالک خصوصا افریقی ملکوں کے طلبہ اورمدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں آنے والے دیگر زائرین اور حجاج سے یہ معلوم کر کے انتہائی تعجب ہوا کہ قادیانی بیرونی ملکوں میں عموماً اور افریقی ملکوں یں خصوصاًاپنے آپ کومسلمان ظاہر کرکے لوگوں کی گمراہی کاسامان کیا کرتے ہیں ۔ا ور افریقی اور عرب ملکوں میں کوئی ایسی جامع کتاب نہیں جس سے ان کے