کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 223
گزررہے ہیں ،اس میں ان کی اندرونی یکجہتی اور اتحاد کس قدرضروری ہے او رنیز ان افتراق پرور اور انتشار انگیز قوتوں سے محترز رہنا کس قدر لازمی ہے جواصلاحی تحریکوں کے روپ میں ظاہر ہوتی ہیں ۔پنڈت جی ( جواہر لعل نہرو) کویہ موقع ملاکہ وہ اس قسم کی تحریکوں سے ہمدردی ظاہر فرمادیں “ [1] پس قادیانیت ایسی تحریک جب وجود آئی تو بدیہی بات تھی کہ تمام مخالف اسلام میں قوتیں اس کی تائید وحمایت کریں ،چنانچہ انہوں نے بالفعل اس کی امداد کی بھی ، حسب منشاء انگریزی سامراج نے تواسے افراد تک مہیا کیے تاکہ وہ اس کی نشوونما کرسکیں اور ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جوانگریز سامراج کےملازم تھے یاوہ لوگ جنہیں ملک وملت سے خیانت کےصلہ میں جاگیریں عطا ہوتی تھیں اور جن کا دین ومذہب ہی سامراج کی رضاجوئی اور ذلہ خواری ہوتاہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف خود مرزا غلام احمد متنبی قادیان نے بھی کیاہے ، جیساکہ وہ رقمطرازہے : ”جس قدر لوگ میری جماعت میں داخل ہیں۔ اکثر ان میں سےسرکار انگریزی کے معزز عہدوں پر ممتاز اور یااس ملک کے نیک نام رئیس اور ان کےخدام اور احباب ہیں ،یاتاجر اور یاوکلاء اور یا نوتعلیم یافتہ انگریزی خواں اور یا ایسے نیک نام علماء اور فضلاء اور دیگر شرفاء ہیں جو کسی وقت سرکار انگریزی کی نوکری کرچکےہیں یااب نوکری پرہیں یا اب ان کے اقارب اور رشتہ دارا وردوست ہیں جواپنےبزرگ مخدوموں سے اثر پذیر ہیں ،اور سجادہ نشینان غریب طبع ۔