کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 221
ہیں۔ ہیں۔ یہ بات عام مسلمانوں کےلیے، جو ہر وقت پان اسلام ازم اور پان عربی سنگھٹن کےخواب دیکھتے ہیں،کتنی ہی مایوس کن ہومگر ایک قوم پرست کےلیے باعث مسرت ہے“ [1] اورپھر جب حکیم مشرق ،شاعر رسالت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمہ اللہ نے قادیانیت کے خلاف ایک مدلل اور مفصل مضمون لکھا جس میں ان کی امت اسلامیہ سے علیحدگی کوبراہین کے ساتھ ثابت کیا توسب سے پہلے جس نے جناب علامہ کی تردید میں قدم اٹھایا، وہ مشہور ہندو لیڈر پنڈت جواہر لال نہروتھے جنہوں نے کئی مضامین قادیانیوں کی تائید وحمایت اوران کی مدافعت میں لکھے،حتی کہ اس کے بعد جب 29 مئی 1936 کوپنڈت جواہر لال صاحب لاہور آئے توقادیانی رضاکاروں نے باقاعدہ ان کا استقبال کیا اور انہیں سلامی دی اورجب اس پر اعتراض ہوا توقادیانی خلیفہ مرزا نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا : ” قریب کے زمانہ میں پنڈت جواہر لال صاحب نے ڈاکٹر اقبال کے ان مضامین کا رد لکھاہے جوانہوں نے احمدیوں کومسلمانوں سے علیحدہ قراردیے جانے کےلیے لکھےتھے اور نہایت عمدگی سے ثابت کیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے قادیانیت پر اعتراض اور احمدیوں کوعلیحدہ کرنے کا سوال بالکل نامعقول اور خود ان کے گزشتہ رویہ کےخلاف ہے توایسے شخص کا جبکہ وہ صوبہ میں مہمان کی حیثیت سےآرہاہو،قادیانیوں کی طرف سے استقبال بہت اچھی بات ہے“ [2] اور پھر شاعر رسالت ڈاکٹر علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ نے جواہر لعل کی تردید کرتے ہوئے