کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 218
بہرحال تمام دشمنان رسالت ماب نے اپنی اپنی کوشش وکاوش ان کی ترقی وترویج میں صرف کی ،اور اس سے ان کا مطلوب ومقصود صرف اور صرف یہ تھا اور ہے کہ مسلمانوں کواس مجاہدا ور قائد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دورکردیاجائے جن کااسم گرامی آج بھی کفر پر کپکپی اور لرزاطاری کردیتاہے ، جن کی ہیبت اور جن کے دبدبہ سے آج بھی ایوان ہائےکفر میں زلزلہ بپاہوجاتاہے، جبکہ انہیں رفیق اعلیٰ کے پاس گئے ہوئے بھی چودہ صدیاں گزرچکی ہیں ۔
اور وہ زندہ وتابندہ تعلیمات والا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہ جس کی امت آج بھی اپنے دور انحطاط وزوال میں مجرموں اور اسلام دشمنوں کےحلق میں کانٹا بنی ہوئی ہے اور جن کی بیداری کا مجرد تصور ہی ملحدوں ، مشرکوں اور لامذہبوں کی آنکھوں کی نیند اڑادینے کےلیے کافی ہے اور دشمنان دین اس بات کوبخوبی سمجھتے ہیں کہ وہ تب تک سکون وچین حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ محمد عربی علیہ السلام ایسے قائد ،راہنما اور راہبر کی لازوال تعلیمات کوختم نہیں کیاجاتا۔ وہ تعلیمات جوآج بھی مردوں میں روح پھونکتی او ر قوموں کےلیے صور اسرافیل کادرجہ رکھتی ہیں ،ا ور اگر ان کاخاتمہ ممکن نہیں توکم از کم انہیں تبدیل کیے بغیر اور ان کی معنویت کو نیست کیے سوا انہیں اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے ۔
”سب سے اہم سوال جواس وقت ملک کے سامنے درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر کس طرح قومیت کاجذبہ بیدار کیاجائے، کبھی ان کے ساتھ سودے،معاہدے پیکٹ کیے جاتے ہیں ،کبھی لالچ دے کر ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی ہے، کبھی ان کے مذہبی معاملات کوسیاسات کاجزو بنا کر