کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 216
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
مقدمہ طبع اول
الحمد للّٰه والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدی وحدہ وعلی آله واصحابه من تبعھم الی یوم الدین
مسلمانوں کی تاریخ میں انیسویں صدی کا نصف آخر اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں اسلام دشمن طاقتوں نے دوایسے فرقوں کووجود بخشا جنہوں نے مسلمانوں کواسلام کے نام پر گمراہ کرنے میں کوئی کسرنہ اٹھارکھی، انہوں نے اعداء اسلام کی اس دیرینہ خواہش کوپورا کرنے میں اپنی پوری توانائیوں کوصرف کردیا کہ مسلمانوں کو اس کے قبلہ وکعبہ اور ان کی امنگوں اور آرزوؤں کے مراکزمکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے منقطع کرکے انہیں ان کے ان دیسوں اور وطنوں میں محصور کردیاجائے جن کے وہ باسی اور شہری ہیں تاکہ وہ مضبوط رابطہ اور تعلق ختم ہوکر وہ جائے جوکروڑوں انسانوں کومشرق سے مغرب اورشمال سے جنوب تک ایک لڑی میں منسلک کیے ہوئے ہےا ور جس کی بناء پر بخاراوسمرقند میں بسنے والے مسلمان وادی نیل کےکلمہ گولوگوں کی ادنیٰ سی تکلیف پرتڑپ اٹھتے اور حجاز ونجد کےصحرانورد اور بادیہ نشین ہمالیہ کے دامنوں میں رہنے والوں اور کشمیر کی بلندیوں پربسنے والوں کی مصیبت کواپنی مصیبت تصور کرتے ہیں۔
[1] مرزاغلام احمد قادیانی کا عریضہ بعنوان ”قابل توجہ گورنمنٹ “ مندرجہ ” تبلیغ رسالت“ ج ۵‘ص ۱۱
[2] یاد رہے کہ اللہ دتہ مرزائی مدیر ”الفرقان “ کومرزائیت کےخلیفہ ثانی اور مرزا غلام احمد کےفرزند مرزا محمود احمد نے ” خالد احمدیت“ کالقب عطا رکھاہے ‘ حالانکہ گیدڑ کواگرشیر کی کھال پہنادی جائے تووہ شیر نہیں بن جاتا‘اور یہاں ”چہ نسبت خاک رام عالم پاک “ کامعاملہ بھی ہے ۔