کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 214
میرےخیال میں اس کتاب کوبھی افریقہ میں اور خصوصاً ان علاقوں میں جہاں اردوبولنے والے بڑی تعداد میں موجودہیں ،ضرور پھیلانا چاہیے ۔ “
اسی بنا پر سعودی حکومت کے نشر واشاعت اور تبلیغ ودعوت کے مختلف شعبوں نے مجھے متعدد دفعہ اس کی اشاعت نوکے بارہ میں لکھا،لیکن میں اپنی بے شمار اور متنوع مصروفیات کی بناء پر وقت نہ نکال سکا،کہ میں چاہتا تھا کہ طبع نوسے پہلے اس پر نظر ثانی کرلی جائے لیکن واحسرتا! کہ قصد وادارہ کے باوصف آج تک وہ طائر عنقا دام نہ آسکا کہ فراغت کہیں جسے ، کہ سیاسی ومذہبی اور کاروباری مصروفیات سے جوفرصت کے لمحات میسر آئے ، وہ چند زیادہ اہم تصنیفات اور مشغولیات میں صرف ہوجاتے ۔ ع
یحری الرباح بما لایشتھی السنن
اور یہ چکر آج تک اسی طرح چل رہاہے ۔ تب میں نے سوچا مالا یدرک کلہ،لا یترکہ کلہ، اسے اسی طرح شائع کردیاجائے کہ شاید خداوندعالم آئندہ اس کے لیے کوئی بہتر صورت پیدا فرمادے ۔
آج اس مجموعہ مضامین کودوبارہ شائع کرتے ہوئے مسرت کی ایک لہر میرے رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے ہے،کہ جس مسئلہ کو ہمارے اکابر نے اٹھایا اور جس کے بیان اور وضاحت میں ہم نے اپنی بساط کی حد تک قلم وزبان کوکھپایا۔ للہ الحمد کہ اس کا ایک حصہ رب کی کرم فرمائیوں اور پاکستان کےغیوروجسور مسلمانوں کی قربانیوں سے حل ہوچکاہے ۔ پاکستان میں قادیانیوں کوان کی اصلیت کے مطابق غیر مسلم اقلیت قرار دیاجاچکا ہے اور دنیا بھر کے مختلف ممالک میں جہاں جہاں مرزائی ڈیرے جمائے ہوئے اور ایک عالم کوورغلائے ہوئے تھے ،وہاں وہاں کے لوگ ان کے فریب سے آگاہ ہوچکے اور انہیں اپنا بوریا بستر سمیٹنے پر