کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 95
نیز آپ نے فرمایا:’إِنَّہُ لَا یُسْتَغَاثُ بِي،وَ إِنَّمَا یُسْتَغَاثُ بِاللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ‘[1] ’’مجھ سے مدد نہ مانگی جائے،(بلکہ)صرف اللہ عزوجل سے مدد طلب کی جائے۔‘‘[2] یہ آپ نے اس وقت فرمایا،جب ایک صحابی نے کہا ’’آؤہم اس ایذا دینے والے منافق سے تحفظ کے لیے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کی مدد طلب کریں۔‘‘ نیز آپ کا ارشاد ہے:’مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَقَدْ کَفَرَ أَوْ أَشْرَکَ‘’’جس شخص نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی،اس نے کفر یا شرک کیا۔‘‘[3] مزید ارشاد ہے:’إِنَّ الرُّقٰی وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَۃَ شِرْکٌ‘ ’’بے شک جھاڑ پھونک،تعویذ گنڈے اور جادو ٹونے سب شرک ہیں۔‘‘[4] عقلی دلائل: 1: خالق،رازق،کائنات میں تصرف کرنے والا اور مدبر صرف ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔بنابریں عبادت کا مستحق بھی وہی اکیلا ہے،اس کا کسی بات میں کوئی بھی شریک اور ساجھی نہیں ہے۔ 2: پوری کائنات کو وہی پال رہا ہے اور سب اسی کے محتاج ہیں۔پھر اور کون معبود ہو سکتا ہے جس کی اس کے ساتھ عبادت کی جائے؟ 3: جسے بھی پکارا جائے یااس سے مدد طلب کی جائے یا اس سے حفظ و پناہ مانگی جائے،کیا وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اُسے پکارنا،اس سے مدد طلب کرنا،اس کے لیے نذرونیاز دینا اور اس پر بھروسا کرنا سب یکسر باطل ہے۔ باب:14 وسیلے کا بیان ہر مسلمان یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک اعمال سے راضی ہوتا ہے اور اپنے بندوں میں سے نیکو کاروں کو پسند کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ اس کا تقرب حاصل کریں،اور اسے اپنا محبوب گردانیں،اچھے
[1] ہے۔اس کاایک موقوف شاہد بھی ہے لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ [2] [ضعیف] مجمع الزوائد: 246/10، حدیث: 17276، اس کی سند ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے اگرچہ معنی درست ہے۔ [3] [صحیح] جامع الترمذي، النذوروالأیمان، باب ماجاء في أن من حلف بغیر اللّٰہ فقد أشرک، حدیث: 1535، وسنن أبي داود، الأیمان والنذور، باب کراھیۃ الحلف بالآباء، حدیث: 3251۔امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔ [4] [ضعیف] سنن أبي داود، الطب، باب في تعلیق التمائم، حدیث : 3883، ومسند أحمد : 381/1۔ اس کی سنداعمش کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔