کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 94
((یَا مُعَاذُ!أَتَدْرِي مَا حَقُّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ؟ قَالَ:اَللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ،قَالَ:أَنْْ یَّعْبُدُوہُ وَ لَا یُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا)) ’’اے معاذ!کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کے بندوں پر کیا حقوق ہیں ؟‘‘ انھوں نے کہا:اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا:’’(وہ یہ ہیں)کہ بندے اسی کی عبادت کریں اور اس میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔‘‘[1] حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:’إِذَا سَأَلْتَ فَاسْئَلِ اللّٰہَ،وَ إِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ‘ ’’جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مانگ۔‘‘ [2] کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جیسے آپ چاہیں اور اللہ چاہے آپ نے فرمایا:’’صرف یہ کہو:جو اکیلا اللہ چاہے۔‘‘[3] اور فرمایا:’إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ،قَالُوا:وَمَا الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ:الرِّیَائُ،یَقُولُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِذَا جُزِيَ النَّاسُ بِأَعْمَالِہِمْ:اِذْہَبُوا إِلَی الَّذِینَ کُنْتُمْ تُرَاؤُونَ فِي الدُّنْیَا فَانْظُرُوا ہَلْ تَجِدُونَ عِنْدَہُمْ جَزَائً؟‘ ’’بے شک مجھے تم پر سب سے زیادہ خطرہ چھوٹے شرک کا ہے۔‘‘ صحابہ نے پوچھا:اے اللہ کے رسول!چھوٹا شرک کیا ہے؟ فرمایا:’’دکھلاوا!اللہ تعالیٰ قیامت کے روز جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو(ریاکاروں سے)فرمائے گا:ان لوگوں کے پاس جاؤ جنھیں دکھانے کے لیے تم یہ عمل کرتے رہے،پھر دیکھو کیا ان کے پاس کوئی جزا ہے۔‘‘ [4] جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّٰهِ﴾’’انھوں نے اپنے عالموں اور راہبوں کو اللہ کے علاوہ رب بنا لیا۔‘‘[5] تو عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے عرض کی:ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔آپ نے فرمایا:’’کیا جب وہ تمھارے لیے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ کسی چیز کو حلال اور حلال کردہ چیز کو حرام قرار دیتے تھے تو تم ان کی بات مان نہیں لیتے تھے؟‘‘ عدی نے کہا:ہاں!آپ نے فرمایا:’’یہی تو ان کی عبادت ہے۔‘‘[6]
[1] صحیح البخاري، التوحید، باب ماجاء في دعاء النبي صلی اللہ علیہ وسلم أمتہ إلٰی توحید اللّٰہ تبارک و تعالٰی، حدیث: 7373، وصحیح مسلم، الإیمان، باب الدلیل علٰی أن من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعًا، حدیث : 30۔ [2] [حسن] جامع الترمذي، صفۃ القیامۃ، باب حدیث حنظلۃ، حدیث: 2516، اسے ترمذی نے صحیح کہا ہے۔ [3] (تفسیرابن کثیر، البقرۃ:22:2)حسن، السنن الکبرٰی للنسائي، عمل الیوم واللیلۃ: 245/6،حدیث: 10825، وسنن ابن ماجہ، الکفارات، باب النھي أن یقال ماشاء اللّٰہ وشئت، حدیث: 2117۔ [4] [حسن] مسند أحمد : 429,428/5، والترغیب والترہیب: 82/1، حدیث: 47 [5] التوبۃ 31:9۔ [6] [ضعیف] جامع الترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ التوبۃ، حدیث : 3095 وقال: غریب والمعجم الکبیر للطبراني: 219,218/17۔ اس کی سند غطیف بن اعین کی و جہ سے ضعیف (