کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 90
بِشَيْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ،وَ إِنِ اجْتَمَعُوا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوکَ بِشَيْئٍ لَّمْ یَضُرُّوکَ إِلَّا بِشَيْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ،رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَ جَفَّتِ الصُّحُفُ‘ ’’اللہ تعالیٰ(کے حقوق)کی حفاظت کر،اللہ تیری حفاظت کرے گا۔اللہ(کے دین)کی حفاظت کر،تو(ہر ضرورت کے وقت)اسے اپنے سامنے پائے گا۔جب تو سوال کرے(دعا مانگے)تو اللہ سے مانگ اور جب مدد طلب کرے تو اللہ سے طلب کر۔اور یہ جان لے کہ اگر سب لوگ جمع ہو کرتجھے نفع دینا چاہیں تو نہیں دے سکتے مگر وہی جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سب جمع ہو کر تیرا نقصان کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔قلم اٹھا لیے گئے ہیں اور کتابیں خشک ہو گئی ہیں۔‘‘[1] نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالَی الْقَلَمُ،فَقَالَ لَہُ:اُکْتُبْ،فَقَالَ:رَبِّ!وَ مَاذَا أَکْتُبُ؟ قَالَ:اُکْتُبْ مَقَادِیرَ کُلِّ شَيْئٍ حَتّٰی تَقُومَ السَّاعَۃُ‘ ’’بے شک سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اسے حکم دیا:لکھ۔قلم نے کہا:کیا لکھوں ؟ فرمایا:قیامت تک آنے والی تمام چیزوں کی تقدیریں لکھ۔‘‘[2] فرمانِ نبوی ہے:((اِحْتَجَّ آدَمُ وَ مُوسٰی،فَقَالَ مُوسٰی:یَا آدَمُ!أَنْتَ أَبُونَا خَیَّبْتَنَا وَ أَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّۃِ،فَقَالَ آدَمُ:أَنْتَ مُوسٰی،اِصْطَفَاکَ اللّٰہُ بِکَلَامِہِ وَ خَطَّ لَکَ التَّوْرَاۃَ بِیَدِہِ،أَتَلُومُنِي عَلٰی أَمْرٍ قَدَّرَہُ اللّٰہُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ یَّخْلُقَنِي بِأَرْبَعِینَ سَنَۃً؟ فَحَجَّ آدَمُ مُوسٰی)) ’’آدم و موسیٰ علیہما السلام کے مابین گفتگو ہوئی۔توموسیٰ(علیہ السلام)نے کہا:اے آدم(علیہ السلام)!آپ ہمارے باپ ہیں،آپ نے ہمیں ناکام بنا دیا اور بہشت سے نکال دیا۔آدم علیہ السلام نے فرمایا:تو موسیٰ(علیہ السلام)ہے،اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنے کلام کے لیے چنا اور تجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کرتورات دی،کیاتو مجھے ایک ایسی بات پر ملامت کرتا ہے،جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری پیدائش سے چالیس سال پہلے مقدر کردی تھی۔چنانچہ(اس بات میں)آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔‘‘[3] ایمان کی تعریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:((أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَ کُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَ تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَ شَرِّہِ))
[1] [صحیح] جامع الترمذي، صفۃ القیامۃ، باب حدیث حنظلۃ، حدیث: 2516، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ یعنی تقدیر کے صحیفوں سے قلم اٹھالیے گئے ہیں اور ان کی سیاہی خشک ہوچکی ہے اب ان میں مزید کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ [2] [صحیح] سنن أبي داود، السنۃ، باب في القدر، حدیث:4700، مسند ابی یعلیٰ میں اس کا صحیح شاہدبھی موجود ہے۔ [3] صحیح البخاري، القدر، باب تحاجّ آدم وموسیٰ علیہم السلام عنداللّٰہ، حدیث: 6614، وصحیح مسلم، القدر، باب حجاج آدم و موسیٰ علیہ السلام ، حدیث: 2652، وسنن أبي داود، السنۃ، باب في القدر، حدیث: 4701۔