کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 78
لوگ ہی جھگڑالو ہیں۔[1] وہ تو(ہمارا)ایسا بندہ تھا،جس پر ہم نے انعام کیا،اور اسے بنی اسرائیل کے لیے(اپنی قدرت کی)مثال بنایا اور اگر ہم چاہتے تو تم میں سے فرشتے بناتے،جو زمین میں(تمھاری جگہ)رہتے۔اور یہ(عیسیٰ علیہ السلام)قیامت کا علم(یا علامت)ہے،پس تم اس(قیامت کی آمد)میں شک نہ کرو۔‘‘[2] فرمانِ الٰہی ہے:﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللّٰهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ﴿٦٨﴾وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴿٦٩﴾وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ﴾ ’’اور جب صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین والے بے ہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے گا(وہ اس سے مستثنیٰ ہے،مثلاً:حوریں)،پھر دوسری بار پھونکا جائے گا تو فورًا سب کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی،کتاب رکھ دی جائے گی،انبیاء(علیہم السلام)اور گواہوں کو لایا جائے گا اور لوگوں کے مابین حق کے مطابق فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔اور ہر نفس کو اس کا کیا،پورا مل جائے گا اور جو کچھ یہ کرتے ہیں وہ(اللہ)خوب جانتا ہے۔‘‘[3] ارشادِ باری ہے:﴿وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ﴾ ’’اور ہم قیامت کے دن انصاف کے ترازو رکھیں گے،کسی شخص پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔اگر رائی کے دانے کے برابر بھی(کسی کا عمل)ہو گا تو ہم اسے(سامنے)لائیں گے اور ہم حساب لینے کو کافی ہیں۔‘‘[4] اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان احوالِ آخرت کی کیسی خوبصورت عکاسی کرتا ہے:﴿فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ﴿١٣﴾وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً﴿١٤﴾فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ﴿١٥﴾وَانشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ﴿١٦﴾وَالْمَلَكُ عَلَىٰ أَرْجَائِهَا ۚ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ﴿١٧﴾يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَىٰ مِنكُمْ خَافِيَةٌ﴿١٨﴾فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ﴾
[1] حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی جہنم میں جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ ان کا خوشی سے چلانا جدلِ محض ہے۔ یاد رہے کہ قرآنِ پاک نے مشرکین مکہ سے جو یہ کہا تھا کہ ’’تم اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو سب جہنم کا ایندھن بنو گے‘‘ تو اس سے مراد وہ ہستیاں نہیں ہیں جو فی الواقع اللہ کے ہاں نیک ہیں (دیکھیے: الأنبیآء 98:21و 103-101)بلکہ اس سے مراد وہ تصویریں ، نشانات، یادگاریں اور بت وغیرہ ہیں جن کی لوگوں نے محض اس لیے پوجا شروع کردی کہ یہ چیزیں ان بزرگوں کی طرف منسوب ہیں ۔ اور جب ہم ان کی پوجا کرتے ہیں تو ان بزرگوں کی روحیں پردئہ غیب سے ہم سے خوش ہوکر ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتی ہیں اور اللہ بھی ہمارے اس طرزِ عمل سے خوش ہوتا ہے۔‘‘ [2] الزخرف 61-57:43۔ [3] الزمر 70-68:39۔ [4] الأنبیآء 47:21۔