کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 74
نے فرمایا:’’یہ درخت۔‘‘ آپ نے وادی کے کنارے کھڑے درخت کی طرف اشارہ فرمایا۔وہ درخت زمین کو چیرتا ہوا آپ کے سامنے کھڑا ہوا،آپ نے اس سے تین بار شہادت مانگی اور اس نے بھی تین بار شہادت دی۔[1] ٭ کھجور کے تنے کا رونا اور اس کی آہ و بکا کو تمام مسجد والوں کا سننا:جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبۂ جمعہ منبر پر دینے لگے اور اس کھجور کے تنے سے دور ہو گئے تو وہ(جدائی برداشت نہ کرسکا اور)آپ کی محبت کے جذبات سے مغلوب ہوکر رونے لگا اس عالم میں اس درخت کے تنے سے گابھن اونٹنی کی طر ح آواز نکل رہی تھی،جسے تمام مسجد والوں نے سنا۔بالآخر آپ اس کے قریب آئے اور اس پر ہاتھ مبارک رکھا تب وہ خاموش ہوا۔[2] ٭ کسریٰ کے بارے میں آپ نے فرمایا:’’اس نے ہمارا مکتوب پھاڑا ہے،اس کا ملک اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گا۔‘‘[3] چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ٭ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے لیے آپ نے فقاہت ِدین کی دعا فرمائی۔چنانچہ وہ اس امت کے بہت بڑے فقیہ بنے۔[4] ٭ آپ کی دعا سے ’’جو‘‘ کے دو مد(ماپنے کا ایک پیمانہ جس کا وزن 625گرام ہے)میں اتنی برکت ہو گئی کہ اسی(80)سے زائد افراد اس سے شکم سیر ہوئے۔[5] ٭ آپ کی دعا سے حدیبیہ کے دن پانی میں برکت ہوئی جب پانی کے ایک چھوٹے سے برتن میں آپ نے ہاتھ رکھا اور انگلیوں کے درمیان سے پانی چشموں کی طرح ابل پڑا۔چنانچہ اس سے پندرہ سو کے قریب لوگوں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور وضو کیا۔[6] ٭ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ’’اسراء‘‘ اور بلند و بالا آسمانوں کا ’’معراج‘‘ اور ’’سدر ۃ المنتہی‘‘ تک ’’صعود‘‘(چڑھائی)اور جب آپ(اسی رات میں)اپنے بستر کی طرف لوٹے تو وہ بدستور پہلے کی طرح گرم تھا۔[7] ٭ اور سب سے بڑا معجزہ اور ابدی نشانی قرآنِ کریم ہے۔اس میں گزشتہ لوگوں کے احوال اور آئندہ والوں کی خبریں ہیں،نیز اس میں ہدایت اور نور ہے۔رہتی دنیا تک اس کا اعجاز قائم ہے۔یہ آپ کی نبوت کی سچائی پر ایک عظیم دلیل اور
[1] [صحیح] سنن الدارمي، باب ما أکرم اللّٰہ بہ نبیہ من إیمان الشجربہ والبہائم والجن، حدیث: 16 وھو حدیث صحیح [2] صحیح البخاري، الجمعۃ، باب الخطبۃ علی المنبر، حدیث : 918۔ [3] مسند أحمد: 442/3۔ [4] صحیح البخاري، الوضوء، باب وضع الماء عند الخلاء، حدیث: 143، وصحیح مسلم، فضائل الصحابۃ ،باب من فضائل عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، حدیث: 2477۔ [5] صحیح البخاري، الأطعمۃ، باب من أکل حتی شبع، حدیث: 5381، وصحیح مسلم، الأشربۃ، باب جواز استباعہ غیرہ إلی دار من یثق برضاہ بذالک:، حدیث: 2040۔ [6] صحیح البخاري، المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام، حدیث : 3576۔ [7] صحیح البخاري، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، حدیث : 3207، وصحیح مسلم، الإیمان، باب الإسراء برسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی السمٰوات و فرض الصلوات، حدیث: 162۔