کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 73
کام کسی غیر نبی اور رسول کے ہاتھوں ظاہر نہیں ہو سکتے۔ ہم کچھ معجزات ذیل میں تحریر کرتے ہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں بلکہ انھیں تواتر کا درجہ حاصل ہے،جنھیں بجز کسی بے عقل کے کوئی رد نہیں کر سکتا۔ ٭ ’’چاند کا شق ہونا‘‘ جب ولید بن مغیرہ اور دیگر کفارِ قریش نے آپ سے دعوائے نبوت کی صداقت کا معجزہ طلب کیا تو چاند دو ٹکڑے ہو گیا،ایک حصہ پہاڑ کے اوپر جبکہ دوسرا اس کے نیچے جاگرا(پھر دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئے۔)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’گواہ رہو!‘‘ [1] اور جب قریش نے دوسرے علاقے کے لوگوں سے شق قمر کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بھی اپنے اپنے مشاہدے کی خبر دی۔‘‘ قرآنِ پاک میں اس کا اظہار یوں ہوا ہے:﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ﴿١﴾وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ﴿٢﴾وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ﴾ ’’قیامت قریب آگئی اور چاند شق ہو گیا اور اگر یہ(کافر)کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے جو(عہدِ قدیم سے)چلا آرہا ہے اور انھوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کے پیچھے چلے۔‘‘ [2] ٭ غزوۂ احد کے دن حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی آنکھ نکل کر رخسار تک آگئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کی جگہ لگا دیا تو وہ پہلے سے بھی بہتر بن گئی۔[3] ٭ غزوۂ خیبر کے دن حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی آنکھیں دکھتی تھیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اپنا لعابِ دہن لگایا اور ان کی آنکھیں اس طرح ٹھیک ہو گئیں جیسے انھیں کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔[4] ٭ غزوئہ خیبر میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پنڈلی پر زخم لگا تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ دم کیا تو انھیں اس کے بعد درد کا احساس تک نہیں ہوا۔[5] ٭ درخت کی گواہی:اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک بدوی آپ کے قریب آیا۔آپ نے پوچھا:’’اے بدوی!تو کہاں جانا چاہتا ہے؟‘‘ اس نے کہا:اپنے اہلِ خانہ کے پاس،آپ نے پوچھا:’’کیا تو کسی بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا:کون سی بھلائی؟ آپ نے فرمایا:’’تو اقرار کرے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،وہ ایک ہے،اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اس کا بندہ اور رسول ہے۔‘‘ اعرابی نے کہا:آپ کی بات پر کون شہادت دے گا؟ آپ
[1] صحیح البخاري، التفسیر، باب ﴿ وَانشَقَّ الْقَمَرُ ﴿١﴾ وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا﴾ ،حدیث: 4864۔ [2] القمر 3-1:54۔ [3] [ضعیف] أسد الغابۃ: 371/4، وحاشیۃ سیرأعلام النبلاء : 332/2۔ [4] صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، باب مناقب علي بن أبي طالب،حدیث:3701،وصحیح مسلم،فضائل الصحابۃ،باب من فضائل علي بن أبي طالب،حدیث: 2406۔ [5] صحیح البخاري، المغازي، باب غزوۃ خیبر، حدیث: 4206۔