کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 706
’’اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ بناؤ اگر دو آدمی میسر نہیں تو ایک مرد اور دو عورتیں۔‘‘[1] اور فرمایا:﴿وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ﴾’’اور گواہی نہ چھپاؤ،جو اسے چھپائے گا،یقینا اس کا دل گناہ گار ہو گا۔‘‘[2] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:((أَلَا أُخْبِرُ کُمْ بِخَیْرِ الشُّھَدَائِ الَّذِي یَأْتِي بِشَھَادَتِہِ قَبْلَ أَنْ یُّسْأَلَھَا)) ’’کیا میں تمھیں اچھے گواہ کی خبر نہ دوں ؟ وہ ہے جو سوال سے پہلے اپنی گواہی پیش کر دے۔‘‘[3] ٭ گواہوں کی شرائط: گواہ کے لیے مسلمان،عاقل،بالغ اور عادل ہونا شرط ہے اور اس پر کسی قسم کی تہمت بھی نہ ہو،یعنی ایسا نہ ہو جس کی گواہی کسی معقول وجہ سے قبول نہیں ہوتی،مثلاً:اس کا فریقین میں سے کسی ایک سے نسبی تعلق ہے یا ایک دوسرے کے لیے میاں بیوی کی گواہی کی صورت بن رہی ہے یا ایسی گواہی جس میں گواہ کو نفع حاصل ہو رہا ہے یا اس سے نقصان دور ہو رہا ہے یا گواہ اپنے مخالف کے خلاف شہادت دے رہا ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَا تَجُوزُ شَھَادَۃُ خَائِنٍ وَّلَا خَائِنَۃٍ وَّلَا زَانٍ وَّلَا زَانِیَۃٍ وَّلَا ذِي غِمْرٍ عَلٰی أَخِیہِ،وَفِي رِوَایَۃٍ:رَدَّ شَھَادَۃَ الْقَانِعِ لِأَھْلِ الْبَیْتِ)) ’’خیانت کرنے والے مرد اور عورت(اسی طرح)زنا کرنے والے مرد اور عورت کی گواہی نافذ نہیں ہوگی اور نہ عداوت والے کی اس کے بھائی کے خلاف۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے خاندان کے نوکر کی گواہی کو ان(خاندان والوں)کے لیے ناجائز قرار دیا ہے۔‘‘[4] ٭ شہادت کے احکام: 1: شاہد اسی چیز کی گواہی دے،جسے اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا یا کانوں سے سنا ہے۔ایک شخص نے شہادت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:((ھَلْ تَرَی الشَّمْسَ؟ قَالَ:نَعَمْ،فَقَالَ عَلٰی مِثْلِھَا:فَاشْھَدْ أَوْدَعْ)) ’’سورج کو دیکھ رہے ہو؟‘‘ اس نے کہا:ہاں،فرمایا:’ ’اس کے مثل پرگواہ بن،ورنہ گواہی ترک کردو۔‘‘[5] 2: بیماری دور نہ ہونے یا موت کی وجہ سے ’’امر واقعہ‘‘ کا شاہد عدالت میں نہ آ سکے تو اس کی شہادت پر دوسرے شاہدوں کی گواہی معتبر ہو گی۔[6] جبکہ اس کی شہادت کے بغیر فیصلہ نہ ہو سکے۔
[1] البقرۃ 282:2۔ [2] البقرۃ 283:2۔ [3] صحیح مسلم، الأقضیۃ،باب بیان خبر الشھود، حدیث: 1719۔ [4] [حسن] سنن أبي داود، القضاء، باب من ترد شھادتہ، حدیث : 3601,3600، حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر میں اسے قوی کہا ہے۔ [5] شعب الإیمان للبھیقي: 455/7، حدیث: 10974۔ [6] گواہ کہے گا کہ فلاں فلاں بھی ادھر ہی تھے اور قابل اعتماد بھی ہیں ، لہٰذا ان کی گواہی لے لو۔ واللہ اعلم۔ (ع،ر)