کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 703
((اَلْبَیِّنَۃُ عَلَی الْمُدَّعِي،وَالْیَمِینُ عَلَی الْمُدَّعٰی عَلَیْہِ))’’ثبوت مدعی پیش کرے اور قسم(اس)مدعا علیہ پر ہے۔‘‘[1] اور فرمایا:’شَاھِدَاکَ أَوْ یَمِینُہُ‘ ’’(مدعی کے)دو گواہ ہوں یا(مدعا علیہ کی)قسم کا اعتبار کرو۔‘‘[2] کم از کم دو گواہ ہونے چاہئیں اگر دو نہیں ہیں تو ایک گواہ اور’ ’مدعی‘‘ کی قسم سے بھی دعویٰ ثابت ہو جائے گا،اس لیے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ((أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَضٰی بِیَمِینٍ وَّشَاھِدٍ))’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قسم اور ایک گواہ کی بنیاد پر فیصلہ صادر فرمایا۔‘‘[3] 3:قسم:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی ہے:((اَلْبَیِّنَّۃُ عَلَی الْمُدَّعِي،وَالْیَمِینُ عَلَی الْمُدَّعٰی عَلَیْہِ)) ’’ثبوت دینا مدعی کی ذمے داری ہے اورقسم مدعا علیہ پر ہے۔‘‘[4] مدعی اپنے دعوے پر ثبوت پیش نہ کر سکے تو ’’مدعا علیہ‘‘ ایک قسم اٹھا کر دعوے(الزام)سے بری ہوجائے گا۔ 4: انکار::’’مدعا علیہ‘‘ اگر قسم اٹھانے سے انکار کر دے تو قاضی بطور ’’اتمام حجت‘‘ کہے:’’تو نے قسم اٹھا لی تو بری ہو جائے گا،ورنہ فیصلہ تیرے خلاف ہو گا۔‘‘ پھر بھی اگر وہ انکار کرے تو اس کے خلاف فیصلہ صادر کر دے،البتہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’مدعا علیہ‘‘ کے ’’انکار حلف‘‘ کی صورت میں ’ ’مدعی‘‘ اپنے دعوے پر قسم اٹھائے گا اور اگر وہ حلف اٹھا لیتا ہے تو دعویٰ ثابت ہو جائے گا۔وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے استدلال کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’قسامت‘‘ کے اثبات کے لیے ’’مدعی‘‘ کو قسم اٹھانے کا کہا۔[5] ٭ فیصلے کی کیفیت اور اس کا طریقہ: جھگڑنے والے دونوں فریق حاضر ہوں تو انھیں اپنے سامنے بٹھائے اور سوال کرے:تم میں ’ ’مدعی‘‘ کون ہے۔وہ اپنا دعویٰ سنائے اور تحریر کرے اور گواہوں کا اظہار کرے۔پھر ’’مدعا علیہ‘‘ سے دریافت کرے کہ تو اس دعوے کے بارے میں کیا کہتا ہے اگر وہ اقرار دعویٰ کر لے تو اس کے مطابق فیصلہ دے۔لیکن اگر وہ دعویٰ تسلیم کرنے سے انکار کر دے تو ’’مدعی‘‘ سے اس کے گواہ طلب کرے،اگر وہ پیش ہو کر گواہی دے دیں تو اس
[1] [صحیح ] السنن الکبرٰی للبیہقي: 253/10، وصحیح البخاري، في الرھن في الحضر، باب إذا اختلف الراھن:، حدیث: 2514، وصحیح مسلم، الأقضیۃ، باب الیمین علی المدعٰی علیہ، حدیث: 1711۔ [2] صحیح مسلم، الإیمان، باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ بالنار، حدیث: 138۔ [3] صحیح مسلم، الأقضیۃ، باب وجوب الحاکم بشاھد ویمین، حدیث: 1712۔ [4] [صحیح] السنن الکبٰری للبیہقي: 253/10، وصحیح البخاري، الرھن في الحضر، باب إذااختلف الراھن:، حدیث : 2514، وصحیح مسلم، الأقضیۃ، باب الیمین علَی المدعٰی علیہ، حدیث: 1711، یہ حدیث اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔ [5] صحیح البخاري، الأحکام، باب: 38، حدیث: 7192، وصحیح مسلم، القسامۃ المحاربین:، باب القسامۃ،حدیث: 1669 مختصرًا۔