کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 698
اس کا مطلب یہ ہے کہ زندقہ،ارتداد اور سحر کی وجہ سے اسے یہ شرعی سزا دی جا رہی ہے،اس لیے کہ یہ تمام کفریہ امور ہیں اور جس کی موت کفر کی حالت میں آئے،مسلمان اس کے وارث نہیں ہوتے اور اس کا جنازہ نہیں پڑھا جاتا اور وہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن بھی نہیں کیا جاتا۔ تعزیر کا بیان: ٭:تعزیر کی تعریف: ضرب(مار پیٹ)طعن وتشنیع،بائیکاٹ یا جلاوطنی کے انداز کی سزائیں تعزیر میں شامل ہیں۔ ٭ تعزیر کا حکم: جس نافرمانی کی سزا شریعت نے متعین نہیں کی اور نہ اس میں کفارہ ہے،اس میں تعزیری سزا واجب ہے جیسا کہ ہاتھ کاٹنے کے نصاب چوتھائی(1/4)دینار سے کم مالیت کی چوری یا کسی اجنبی عورت کو ہاتھ لگانا،اسے بوسہ دینا یا کسی مسلمان کو ایسی گالی دینا جس میں حد قذف نہیں ہے یا زخمی کرنے یا عضو توڑنے سے کم کسی کو مارنا وغیرہ۔ ٭ تعزیر کے احکام و مسائل: 1: تعزیر میں اگر مارا جا رہا ہے تو دس ضربات سے زیادہ نہ لگائی جائیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’لَا یُجْلَدُ أَحَدٌ فَوْقَ عَشْرَۃِ أَسْوَاطٍ إِلَّا فِي حَدٍّ مِّنْ حُدُودِ اللّٰہِ‘’’اللہ کی حدود کے علاوہ امور میں کسی کو دس سے زیادہ کوڑے نہ لگائے جائیں۔‘‘[1] 2: عدالت مجاز تعزیری سزا کا فیصلہ اپنی صوابدید کے مطابق کرے،اگر نافرمان کو ڈانٹ اور زجر و توبیخ ہی کافی ہے تو اسی پر اکتفا کیا جائے،اگر ایک دن اور رات کے لیے قید کرنا مناسب ہے تو زیادہ سزا دینے کی ضرورت نہیں۔اگر معمولی جرمانہ اسے جرم سے باز رکھ سکتا ہے تو بھاری جرمانہ عائد نہ کیا جائے،اس لیے کہ تعزیر میں اصل مقصود مجرم کی اصلاح و تادیب ہے نہ کہ اسے عذاب دینا اور اس سے انتقام لینا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو محض اپنے اس فرمان سے تادیب کی تھی: ((إِنَّکَ امْرُؤٌ فِیکَ جَاھِلِیَّۃٌ))’’تو ایک ایسا مرد ہے جس میں جاہلیت ہے۔‘‘[2] اور فرمایا:((إِذَا رَأَیْتُمْ مَّنْ یَّبِیعُ أَوْیَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ،فَقُولُوا:لَا أَرْبَحَ اللّٰہُ تِجَارَتَکَ)) ’’جو شخص مسجد میں خریدوفروخت کرتا ہے،اسے کہو:اللہ تیری تجارت میں نفع نہ دے۔‘‘[3] اور جو مسجد میں گم شدہ چیز تلاش کرنے کے لیے اعلان کرے اس کو فرمایا:((لَا رَدَّھَا اللّٰہُ عَلَیْکَ،فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِھٰذَا))
[1] صحیح البخاري، الحدود، باب: کم التعزیر والأدب؟ حدیث: 6848، وصحیح مسلم، الحدود، باب قدر أسواط التعزیر، حدیث: 1708 واللفظ لہ۔ [2] صحیح البخاري، الإیمان، باب: المعاصي من أمر الجاھلیۃ:، حدیث: 30، وصحیح مسلم، الأیمان، باب إطعام المملوک مما یأکل:، حدیث: 1661۔ [3] [حسن] جامع الترمذي، البیوع، باب النھي عن البیع في المسجد:، حدیث: 1321۔