کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 687
فحش کاری کا مرتکب ہوا ہے اور تعزیری سزا اس کی منحرف فطرت کو درست کرنے کے لیے ہے۔بعض آثار میں یہ بھی وارد ہے کہ بدفعلی کرنے والے اور جانور دونوں کو قتل کر دیا جائے مگر وہ صحیح اسناد کے ساتھ ثابت نہیں ہوئے،لہٰذا علماء نے عدالت کی صوابدیدی تعزیری سزا پر ہی اکتفا کیا ہے جس سے اس کے فاسد مزاج کی درستی ہو جائے۔
غلام اور لونڈی زنا کریں تو ان کی سزا فقط درے ہیں،چاہے شادی شدہ ہی ہوں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:﴿فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ﴾
’’ان کی سزا آزاد عورتوں کی سزا کی نصف ہے۔‘‘[1]
چونکہ موت آدھی نہیں ہو سکتی،لہٰذا اس سے مراد پچاس درے ہیں،رجم نہیں۔ان کا مالک یہ ’’حد‘‘ لگائے گا اور اگر مالک انھیں ’’عدالت مجاز‘‘ میں پیش کر دے تو یہ بھی جائز ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک کالی لونڈی کے پاس بھیجا تاکہ میں اس پر حد زنا قائم کروں تو میں نے اسے حالت نفاس میں پایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:((إِذَا تَعَالَتْ مِنْ نِّفَاسِھَا فَاجْلِدْھَا خَمْسِینَ))
’’ جبنفاس سے فارغ ہو جائے تو اس کو پچاس درے لگانا۔‘‘[2]
اور فرمایا:((إِذَا زَنَتْ أَمَۃُ أَحَدِکُمْ فَتَبَّیَنَ زِنَاھَا فَلْیَجْلِدْھَا الْحَدَّ وَلَا یُثَرِّبْ عَلَیْھَا))
’’جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے اور اس کا زنا ثابت ہو جائے تو وہ اس پر حد لگائے اور اسے طعن و تشنیع نہ کرے۔‘‘[3](اس لیے کہ شرعی سزا نے اسے پاک کر دیا ہے۔)
سرقہ(چوری)کی حد کا بیان:
٭ سرقہ کی تعریف:
کسی کا محفوظ مال مخفی طریقے سے ہتھیا لینا،مثلاً:دکان یا مکان میں داخل ہو کر کپڑے،یا اجناس یا سونا اور چاندی وغیرہ لے جانا ’’سرقہ‘‘ کہلاتا ہے۔
٭ چوری کا حکم:
یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کو حرام قرار دیا ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۗ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾
’’چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹ دو،یہ اللہ کی طرف سے ان کے کام(چوری)کی سزا ہے اور اللہ غالب،حکمت والا ہے۔‘‘[4]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چور پر لعنت کرتے ہوئے فرمایا:’لَعَنَ اللّٰہُ السَّارِقَ یَسْرِقُ الْبَیْضَۃَ فَتُقْطَعُ یَدُہُ‘
’’اللہ چور پر لعنت کرے کہ وہ انڈا چراتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔‘‘[5]
[1] النسآء 25:4۔
[2] [ضعیف] مسند أحمد: 136/1، وسنن أبي داود، الحدود، باب في إقامۃ الحد علَی المریض، حدیث: 4473۔
[3] صحیح البخاري، البیوع، باب بیع المدبر، حدیث: 2234، و صحیح مسلم، الحدود، باب، رجم الیھود، أھل الذمۃ في الزنٰی، حدیث: 1703۔
[4] المآئدۃ 38:5
[5] صحیح البخاري، الحدود، باب لعن السارق إذا لم یسم،7 حدیث: 6783، وصحیح مسلم، الحدود، باب حد السرقۃ ونصابھا، حدیث: 1687۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ چور انڈے جیسی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے چوریاں شروع کرتا ہے اور ایک ایسا موقع آتا ہے کہ(حدِ نصاب کو پہنچنے کے بعد)اس کا ہاتھ کٹ جاتا ہے۔