کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 686
4: اور وہ ’’اقرار زنا‘‘سے رجوع نہ کر چکا ہو،اگر’ ’حد‘‘ لگنے سے پہلے اپنی تکذیب کرے اور کہے میں نے زنا نہیں کیا تو اس پر حد نہیں لگے گی،اس لیے کہ ماعز رضی اللہ عنہ کو جب پتھر لگے تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے،صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے پکڑا اور مارا جس سے وہ فوت ہو گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کا پتہ چلا تو فرمایا:’’تم نے اسے کیوں نہ چھوڑ دیا؟‘‘گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فرار کو اعتراف زنا سے رجوع قرار دیا،یہ بھی احادیث میں وارد ہے کہ بھاگتے ہوئے ماعز رضی اللہ عنہ نے کہا:مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ،میری قوم نے مجھے قتل کیا ہے اور دھوکے میں رکھا ہے،انھوں نے تو مجھے کہا تھا کہ آپ قتل کا حکم نہیں دیں گے۔[1] ٭ زنا کاروں پر حد قائم کرنے کا طریقہ: زمین میں گڑھا کھودا جائے،زانی کو اس میں کھڑا کیا جائے اور سینے تک اسے دبا دیا جائے اور پھر پتھر مارے جائیں یہاں تک کہ وہ مر جائے۔یہ کارروائی امام اور مسلمانوں کی ایک جماعت،جو چار سے کم نہ ہو،کے سامنے انجام پائے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ’’اور ان کی سزا کے وقت ایمان والوں کی ایک جماعت حاضر ہونی چاہیے۔‘‘[2] نیز اس بارے میں عورت اور مرد کا حکم برابر ہے،البتہ عورت کے کپڑے باندھ دیے جائیں تاکہ وہ ننگی نہ ہو۔ یہ حد رجم قائم کرنے کے لیے ضابطۂ کار ہے،غیر شادی شدہ کو درے مارنے کا طریقہ وہی ہے جو ’’قذف‘‘ اور شراب نوشی کی حد کا ہے۔ ٭ لواطت کا بیان: لواطت کی ’’حد‘‘ بھی سنگسار کرنا ہے،اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کا فرق نہیں ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَنْ وَّجَدْتُّمُوہُ یَعَمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِہِ)) ’’جس کو تم قوم لوط والا عمل کرتے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو۔‘‘[3] جانوروں کے ساتھ بدفعلی کرنے والے کو بدترین تعزیری سزا دینی چاہیے اور قید کیا جائے،اس لیے کہ وہ بالاجماع
[1] [حسن] سنن أبي داود، الحدود، باب رجم ماعز بن مالک، حدیث: 4420۔ [2] النور 2:24۔ [3] [حسن ] سنن أبي داود، الحدود، باب فیمن عمل عمل قوم لوط، حدیث : 4462، وجامع الترمذي، الحدود، باب ماجاء في حد اللوطي، حدیث: 1456، اسے امام حاکم،ذہبی اور ابن الجارود نے صحیح قرار دیا ہے۔ ہمارے شیخ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے ایک رسالہ لکھا ہے (القندیل المشعول في تحقیق حدیث اقتلوا الفاعل والمفعول)اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے (از زبیر علی زئی)حق یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس لیے کہ یہ عمرو بن ابی عمرو عن عکرمہ کے طریق سے ہے اور عمرو بن ابی عمرو کی عکرمہ سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔ شیخ بشار عواد معروف نے بھی اسے ضعیف الاسناد ہی قرار دیا ہے۔ (عبدالولی)