کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 681
کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ٭ خمر کی تعریف: جملہ نشہ آور مشروبات شرعًا’’خمر‘‘ ہیں،اس لیے کہ آپ کا ارشاد ہے:’کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٌ،وَکُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ‘’’ہر نشہ لانے والی چیز ’’خمر‘‘ہے اور ہر ’ ’خمر‘‘ حرام ہے۔‘‘[1] ٭ شراب پینے کا حکم: شراب کم ہو یا زیادہ اس کا پینا حرام ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے سے منع فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ﴾’’کیا تم اس سے باز آنے والے ہو!۔‘‘ [2] اور فرمایا:﴿فَاجْتَنِبُوهُ﴾’’اس سے اجتناب کرو۔‘‘[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’لَعَنَ اللّٰہُ الْخَمْرَ وَبَائِعَھَا‘’’اللہ نے شراب(پینے والے)اور اس کے بیچنے والے پر لعنت کی ہے۔‘‘[4] اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پینے والے پر حد لگائی ہے جیسا کہ صحیحین میں ہے۔ ٭ شراب کی حرمت میں حکمت: شراب کو حرام قرار دے کر شریعت نے مسلمان کے دین،عقل،بدن اور مال کی حفاظت کی ہے۔ ٭ شرابی کا حکم: جس پر اپنے اعتراف یا دو عادل گواہوں کے ذریعے سے شراب پینا ثابت ہو جائے،اس کی پیٹھ پر 80 درے مارنے چاہئیں اگر وہ آزاد ہے اور اگر غلام ہے تو چالیس40 درے مارے جائیں گے،اس لیے کہ لونڈیوں کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے:﴿فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ﴾’’ان کی سزا آزاد عورتوں کی سزا سے نصف ہے۔‘‘[5] یاد رہے کہ غلام کو اس بارے میں لونڈی پر قیاس کیا جاتا ہے اور اسے نصف سزا دی جاتی ہے۔ ٭ شرابی پر وجوب حد کی شرائط: شراب پینے والے پر نفاذ حد کے لیے،یعنی حد لگانے کی شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان،عاقل،بالغ اور بااختیار ہو،شراب کی حرمت کا اسے علم ہو اور تندرست ہو،بیمار نہ ہو،البتہ بیمار سے حد ساقط نہیں ہو گی۔جب تندرست ہو گا تب اس پر حد قائم کی جائے گی۔ شرابی پر بار بار حد نہیں قائم کی جائے گی:ایک مسلمان پر کئی بار شراب پینا ثابت ہو جائے(اس کے بعد معاملہ قاضی تک پہنچ جائے)تو ایک ہی حد کافی ہے،البتہ حد کی اقامت کے بعد اگر دوبارہ شراب پینا ثابت
[1] صحیح مسلم، الأشربۃ، باب بیان أن کل مسکرخمر:، حدیث: 2003۔ [2] المآئدۃ 91:5۔ [3] المآئدۃ 90:5۔ [4] [حسن] سنن أبي داود، الأشربۃ، باب العصیر للخمر، حدیث: 3674، ومسند الربیع، حدیث: 625، واللفظ لہ اسے امام حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔ [5] النسآء 25:4۔