کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 676
أَھْلِ الشَّاۃِ أَلْفَيْ شَاۃٍ)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ والوں پر ایک سو اونٹ اور گائے والوں پر دو سو گائے اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں مقرر کی تھیں۔‘‘[1] اور ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:((أَنَّ رَجُلًا مِّنْ بَنِي عَدِيٍّ قُتِلَ فَجَعَلَ النَّبِيُ صلی اللّٰه علیہ وسلم دِیَتَہُ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا)) ’’بنو عدی کا ایک مرد قتل ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت بارہ ہزار درہم مقرر کی۔‘‘[2] اسی طرح عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی دستاویز میں،جسے تمام امت نے قبول کیا ہے،یہ الفاظ ہیں:((وَعَلٰی أَھْلِ الذَّھَبِ أَلْفُ دِینَارٍ)) ’’اور سونے والوں پر ایک ہزار دینار ہے۔‘‘[3] ان پانچ مقررہ دیات میں سے جو بھی قاتل ادا کرے گا،مقتول کے ولی کو اس کا قبول کرنا لازم ہو گا۔مسلمان آزاد عورت کی دیت مسلمان مرد کی دیت سے نصف ہے۔ موطا امام مالک میں عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:’’یہ بات معروف رہی ہے کہ عورت کی دیت تہائی تک مرد کے برابر ہے،اس سے زائد میں عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف ہو جاتی ہے۔‘‘٭ ذمی یہودی یا نصرانی کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہے اور ان کی عورتوں کی دیت ان کی اپنی دیت سے بقدر نصف ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((عَقْلُ الْکَافِرِ نِصْفُ عَقْلِ الْمُؤْمِنِ))’’کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہے۔‘‘[4] غلام کی دیت اس کی قیمت ہے،چاہے جتنی بھی ہو جائے،اس لیے کہ اگر وہ مقتول ہے تو اس کے قتل کی صورت میں مالک کو اس کی قیمت ادا کر دی جائے گی۔عورت کے پیٹ میں جنین،چاہے لڑکا ہے یا لڑکی تو اس(جنین)کی دیت ایک غلام یا لونڈی ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فیصلے میں فرمایاتھا کہ جنین میں ایک غلام یا لونڈی ہے،جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔[5]اور یہ اس صورت میں ہے کہ جنین(بچہ)پیٹ ہی میں مر جائے لیکن اگر زندہ پیدا ہو گیا اور پھر مر گیا تو اس میں قصاص ہے یا پھر پوری دیت ہے۔ ٭ اگر ایسا زخم ہے جس کی دیت تہائی(کل دیت کے تیسرے حصے)تک پہنچتی ہے تو اس میں مرد و عورت برابر ہیں:لیکن اگر زخم کی دیت تہائی سے زیادہ بنتی ہے تو پھر ایک مرد کے زخم کی جتنی دیت ہو گی اس سے آدھی دیت عورت کے زخم کی ہو گی۔(محمدعبدالجبار)
[1] [ضعیف] سنن أبي داود، الدیات، باب الدیۃ کم ھي، حدیث: 4544,4543۔ [2] [حسن] سنن أبي داود، الدیات، باب الدیۃ کم ھي، حدیث: 4546۔ [3] [صحیح] سنن النسائي، القسامۃ، باب ذکر حدیث عمروبن حزم في العقول :، حدیث: 4857۔ [4] [حسن] جامع الترمذي، الدیات،باب ما جاء في دیۃ الکفار، حدیث: 1413، و سنن النسائي، باب کم دیۃ الکافر، حدیث: 4811واللفظ لہ۔ [5] صحیح البخاري، الدیات، باب جنین المرأۃ، حدیث: 6905۔