کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 674
’’اگر اس کے قتل پر صنعاء شہر کے(تمام)لوگ مجتمع ہوتے تو میں اس کے عوض سب کو قتل کر دیتا۔‘‘[1] جنایت کے بڑھ جانے کی صورت میں اضافے کے مطابق فیصلہ ہو گا،مثلاً:ایک شخص نے کسی کی انگلی کاٹ دی اور زخم مندمل نہیں ہوا اور ہاتھ شل ہو گیا تو قصاص یا دیت اس(نتیجے)کے مطابق ہو گی۔ قصاص میں زخم بڑھ جائے تو وہ ضائع ہے،مثلاً:ایک شخص نے قصاص میں دوسرے کا ہاتھ کاٹا اور وہ مر گیا تو قصاص لینے والا ضامن نہیں الّا یہ کہ اس نے قصاص لینے میں تجاوز کیا ہو،مثلاً:اس نے کند آلے کے ساتھ کاٹا ہے یا زہر آلود آلہ استعمال کیا ہے تو پھر وہ ضامن ہو گا۔ متاثرہ شخص کے زخم یا عضو کے بیکار ہونے کی صورت میں ان کے ٹھیک ہونے سے پہلے مجرم سے قصاص نہیں لیا جاتا،اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم کے مندمل ہونے سے پہلے قصاص لینے سے منع کیا ہے۔٭[2] اگر کسی نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور زخم ختم ہونے سے پہلے قصاص لے لیا،پھر زخم کے پھیلاؤ کی وجہ سے عضو ضائع ہو گیا تو اب وہ دوبارہ قصاص کا مطالبہ نہیں کر سکتا،اس لیے کہ اس نے حکم نبوی کی خلاف ورزی کر کے قصاص لینے میں جلد بازی کی ہے۔ دیت کا بیان: ٭ دیت کی تعریف: مستحق خون کو جو مال جنایت کے عوض میں دیا جائے،وہ دیت ہے۔٭ ٭ دیت کا حکم: دیت شریعت اسلامیہ میں ثابت ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا﴾ ’’اور اولیاء(مقتول کے ورثاء)کو دیت دی جائے،الّایہ کہ وہ معاف کر دیں۔‘‘[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَنْ قُتِلَ لَہُ قَتِیلٌ فَھُوَ بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ:إِمَّا أَنْ یُّفْدٰی،وَإِمَّا أَنْ یُّقِیدَ)) ’’جس کا آدمی مارا جائے،اسے دو چیزوں کے درمیان اختیار ہے کہ اسے دیت دی جائے یا قصاص دلایا جائے۔‘‘[4] ٭ دیت کس پر واجب ہوتی ہے: جس نے کسی کو خود یا کسی طرح عمدًا قتل کیا ہے تو اس قاتل کے اپنے مال سے دیت عائد ہوتی ہے اور اگر قتل ’’شبہ عمد‘‘ہے یا ’’قتل خطا‘‘ہے تو دیت ’’عاقلہ‘‘ پر ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فیصلہ کیا ہے۔جب دو عورتیں لڑ پڑیں،ایک نے دوسری کو پتھر مارا اور اسے اور اس کے پیٹ میں بچے کو قتل کر دیا تو ٭ کیونکہ زخم کے جسم میں سرایت ہونے کی صورت میں باقی جسم کے تلف ہونے کا امکان موجود ہے۔ ٭ مستحق خون:مقتول کا وارث یا زخمی جسے قصاص یا دیت لینے یا معاف کرنے کا حق ہوتا ہے۔واللہ اعلم(ع،ر)
[1] الموطأ للإمام مالک، العقول، باب ماجاء في الغیلۃ والسحر، حدیث: 1671، وفتح الباري: 228/12، حدیث: 6896، وسنن الدارقطني: 202/3۔ [2] مسند أحمد : 217/2۔ [3] النسآء 92:4۔ [4] صحیح البخاري، في اللقطۃ، باب کیف تعرف لقطۃ:، حدیث: 2434، وصحیح مسلم، الحج، باب تحریم مکۃ: حدیث: 1355۔