کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 672
طریقے سے پیروی کی جائے(دیت طلب کی جائے)اور(قاتل یا اس کے عاقلہ)نیکی اور خوش خلقی کے ساتھ اس کی ادائیگی کریں۔‘‘[1] نیز فرمان ربانی ہے: ﴿فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللّٰهِ﴾’’پس جو معاف کرتا ہے اور اصلاح کرتا ہے،اس کا اجر اللہ پر ہے۔‘‘[2] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((مَنْ قُتِلَ لَہُ قَتِیلٌ فَھُوَ بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ:إِمَّا أَنْ یُّفْدٰی،وَإِمَّا أَنْ یُّقِیدَ)) ’’جس کا قتل ہو جائے تو اسے دو چیزوں میں اختیار ہے چاہے تو اسے دیت دی جائے یا قصاص دلایا جائے۔‘‘[3] نیز فرمایا:((مَا عَفَا رَجُلٌ إِلَّا زَادَہُ اللّٰہُ بِہِ عِزًّا))’’جو مردکسی کو معاف کر دیتا ہے،اللہ اس کے بدلے اس کی عزت بڑھا دیتا ہے۔‘‘[4] تنبیہ: 1: جو وارث دیت قبول کر لے تو قصاص لینے میں اس کا حق ساقط ہو جاتا ہے،چنانچہ قبول دیت کے بعد اگر اس نے قصاص کا مطالبہ کیا تو اسے یہ حاصل نہیں ہو سکے گا اور اگر وہ انتقام لینے پر تل جائے اور قاتل کو قتل کر دے تو اس کو قتل کیا جائے گا،البتہ قصاص اختیار کرنے کے بعد بھی فیصلہ بدل کر وہ دیت لینا قبول کر سکتا ہے۔ 2: قاتل کے مر جانے کے بعد ’’اولیائے مقتول‘‘ صرف دیت کا مطالبہ کر سکتے ہیں،اس لیے کہ قاتل کی موت کی وجہ سے قصاص ممکن نہیں رہا ہے،یہ اس لیے بھی کہ قصاص میں غیر قاتل(قاتل کے بجائے اس کے کسی عزیز)کو قتل نہیں کیا جا سکتا،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا﴾ ’’اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے،ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے(کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے)تو اسے چاہیے کہ(قصاص کے وقت قاتل کے)قتل میں زیادتی نہ کرے بے شک اس کی مدد کی جائے گی۔‘‘[5] ’’قتل میں زیادتی‘‘ کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ غیر قاتل کو قتل کر دے۔ 3: قاتل خطا اور شبہ عمد دونوں پر کفارہ ہے،چاہے مقتول ماں کے پیٹ میں بچہ ہے یا بڑا،چاہے آزاد ہے یا غلام۔ایسے قتل کا کفارہ ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہے۔اگر وہ اس کی طاقت نہیں پاتا تو دوماہ لگاتار روزے رکھنے ہیں،اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ ۗ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيمًا حَكِيمًا﴾
[1] البقرۃ 178:2۔ [2] الشورٰی 40:42۔ [3] صحیح البخاري، في اللقطۃ، باب کیف تعرف لقطۃ أہل مکۃ، حدیث: 2434، وصحیح مسلم، الحج، باب تحریم مکۃ وتحریم صیدہا:، حدیث: 1355۔ [4] [صحیح ] صحیح مسلم، البروالصلۃ والأدب، باب استحباب العفو، حدیث: 2588، و مسند أحمد : 438/2 واللفظ لہ [5] بنیٓ إسراء یل 33:17۔