کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 669
عَظِيمًا﴾ ’’اور جو عمدًا کسی مومن کو قتل کر دیتا ہے اس کی سزا جہنم ہے،وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا ہے اور اس پر لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا ہے۔‘‘[1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:((أَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِي الدِّمَائِ)) ’’قیامت کے دن سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔‘‘[2] نیز فرمایا:((لَا یَزَالُ الْمُؤْمِنُ فِي فُسْحَۃٍ مِّنْ دِینِہِ مَالَمْ یُصِبْ دَمًا حَرَامًا)) ’’مومن اپنے دین میں بڑھتا ہے،جب تک کہ کسی حرام خون کا ارتکاب نہ کرے۔‘‘[3] نفس پر جنایت کی اقسام: نفس پر جنایت کی درج ذیل تین اقسام ہیں: ٭ قتل عمد: یعنی جنایت کرنے والا جان بوجھ کر قتل کے ارادے سے کسی کو لوہے کی چیز یا لاٹھی یا پتھر مارے یا اوپر سے پھینک دے یا پانی میں ڈبو دے یا آگ میں جلا دے یا گلا گھونٹ دے یا زہر دار چیز کھلا دے اور وہ اسی وجہ سے مر جائے یا اعضاء تلف کر دے یا بدن کے کسی حصے پر زخم لگائے۔اس’ ’ارادی جنایت‘‘ کا حکم یہ ہے کہ اس میں قصاص لازم ہے،چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ﴾ ’’اور ہم نے(تورات میں)ان پر لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان،آنکھ کے بدلے آنکھ،ناک کے بدلے ناک،کان کے بدلے کان،دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بھی قصاص ہے۔‘‘[4] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَنْ قُتِلَ لَہُ قَتِیلٌ فَھُوَ بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ:إِمَّا أَنْ یُّفْدٰی،وَإِمَّا أَنْ یُّقِیدَ)) ’’جس کا قتل ہو جائے،وہ دو میں سے ایک بات چن لے،چاہے تو اسے دیت(مخصوص مالی معاوضہ)ادا کی جائے یا قصاص لے۔‘‘[5] آپ کے ایک اور فرمان میں ہے:((مَنْ أُصِیبَ بِدَمٍ أَوْ خَبْلٍ فَھُوَ بِالْخِیَارِ بَیْنَ إِحْدٰی ثَلَاثٍ:إِمَّا أَنْ یَّقْتَصَّ أَوْ یَأْخُذَ الْعَقْلَ أَوْ یَعْفُوَ،فَإِنْ أَرَادَ رَابِعَۃً فَخُذُوا عَلٰی یَدَیْہِ))
[1] النسآء 94:4۔ [2] صحیح البخاري، الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ، حدیث: 6533، و صحیح مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب، المجازاۃ بالدماء في الآخرۃ:، حدیث: 1678 واللفظ لہ۔ [3] صحیح البخاري، الدیات،باب قول اللّٰہ تعالٰی﴿ وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا﴾، حدیث: 6862۔ [4] المآئدۃ 45:5۔ [5] صحیح البخاري، في اللقطۃ، باب: کیف تعرف لقطۃ أھل مکۃ، حدیث: 2434، و صحیح مسلم، الحج، باب تحریم مکۃ و تحریم صیدھا:، حدیث: 1355۔