کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 662
’’جو تو نے کمان(یا گولی)کے ساتھ شکار کیا اور(اس پر)اللہ کا نام لیا تو کھا۔اور جو تو نے نہ سدھائے ہوئے کتے کے ذریعے سے شکار کیا اور(پھر)ذبح کر لیا تو اسے کھا لے۔‘‘[1] 3: آلۂ شکار تیز ہونا چاہیے جو جلد کو پھاڑ دے،اگر دھار دار اور تیز نہیں ہے،جیسا کہ لاٹھی یا پتھر تو اس کے ساتھ ذبح کیا ہوا شکار کھانا حلال نہیں ہے،اس لیے کہ وہ چوٹ لگنے سے مرے ہوئے جانور کے حکم میں ہے،الّا یہ کہ جانور زندہ مل جائے اور اسے ذبح کر لیا جائے تو پھر اس کا کھانا حلال ہے۔معراض(چوڑائی کے بل لگنے والے آلے)کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:((فَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِہِ فَقَتَلَ فَإِنَّہُ وَقِیذٌ فَلَا تَأْکُلْ)) ’’جب معراض(چوڑائی والا حصہ)لگے تو نہ کھا،اس لیے کہ یہ جانور چوٹ لگنے سے مرا ہے۔‘‘[2] اگر حملہ کرنے والا کتا،باز یا شکرا ہو تو اس کا سدھایا ہوا ہونا ضروری ہے،اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ ’’اور جو شکاری درندے تم نے شکار کرنے کو سدھائے ہوں(اور)جن کو تم شکار کی تعلیم دیتے ہو،جس طرح کہ اللہ نے تم کو تعلیم دی ہے،جو وہ تمھارے لیے محفوظ رکھیں تو وہ تم کھا لیا کرو اور اس پر اللہ کا ذکر کیا کرو۔‘‘[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((وَمَا صِدْتَّ بِکَلْبِکَ الْمُعَلَّمِ فَاذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ ثُمَّ کُلْ)) ’’اور جو تو سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ شکار کرے تو اللہ کا نام ذکر کر،پھر کھا۔‘‘[4] تنبیہ:سدھائے ہوئے جانور بالخصوص کتے کی پہچان یہ ہے کہ بلانے پر فورًا تعمیل کرے۔شکار پر جھپٹنے کا اشارہ دیا جائے تو جھپٹے،روکا جائے تو رک جائے،البتہ کتے کے علاوہ کسی اور جانور میں رکنے والی صفت ناممکن ہے۔ 3: شکار پکڑنے میں شکاری کتا دوسرے کتوں کے ساتھ نہ مل گیا ہو،اس لیے کہ پھر یہ پتہ نہیں چل سکے گا کہ شکار کو کس نے پکڑا ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اس نے یا کسی اور کتے نے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((وَإِنْ وَّجَدْتَّ مَعَ کَلْبِکَ کَلْبًا غَیْرَہُ وَقَدْ قَتَلَ فَلَا تَأْکُلْ،فَإِنَّکَ لَا تَدْرِي أَیُّھُمَا قَتَلَہُ)) ’’اگر تو اپنے کتے کے ساتھ دوسرا کتا دیکھے جبکہ شکار قتل ہو گیا ہے تو نہ کھا،اس لیے کہ تو نہیں جانتا کہ اسے کس نے قتل کیا۔‘‘[5]
[1] صحیح البخاري، الذبائح والصید، باب صید القوس، حدیث: 5478، وصحیح مسلم، الصید والذبائح، باب الصید بالکلاب المعلمۃ:، حدیث: 1930۔ [2] صحیح البخاري، الذبائح والصید،باب صید المعراض، حدیث: 5476، وصحیح مسلم، الصید والذبائح، باب الصید بالکلاب المعلمۃ والرمي، حدیث: 1929۔ [3] المآئدۃ 4:5۔ [4] صحیح البخاري، الذبائح والصید، باب ماجاء في التصید، حدیث: 5488۔ [5] صحیح البخاري، الذبائح والصید، باب التسمیۃ علی الصید، حدیث: 5475، و صحیح مسلم، الصید والذبائح، باب الصید بالکلاب المعلمۃ والرمي، حدیث: 1929 واللفظ لہ۔