کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 661
شکار کا بیان: ٭ شکار کی تعریف: خشکی میں رہنے والا وحشی جانور(جو گھر کا پالتو نہ ہو،)یا پانی میں ہی رہنے والے جانور کو حاصل کرنا شکار کہلاتا ہے۔ ٭ شکار کا حکم: حج یا عمرے کے لیے احرام باندھنے والے کے علاوہ سب لوگ شکار کر سکتے ہیں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا﴾’’اور جب احرام سے حلال ہو جاؤ(احرام کھول دو)تو شکار کر سکتے ہو۔‘‘[1]البتہ لہو و لعب کے طور پر اس کو اپنانا درست نہیں ہے۔ ٭ شکار کی اقسام: شکار دو قسم کا ہے،ایک بحری شکار،یعنی سمندر میں رہنے والے جانور مچھلی وغیرہ کو پکڑنا۔ اس کا حکم یہ ہے کہ محرم اور غیر محرم سب کے لیے حلال ہے۔ان جانوروں میں البتہ آبی(سمندری)انسان اور آبی خنزیر حلال نہیں ہیں،اس لیے کہ یہ نام میں انسان اور خنزیر کے ساتھ شریک ہیں،جن کا کھانا حرام ہے۔[2] اور دوسرا برّی شکار۔اس کی بہت سی اجناس ہیں۔جنھیں شریعت نے مباح قرار دیا ہے وہ مباح ہیں اور جن سے منع کر دیا ہے،وہ ممنوع ہیں۔ ٭ شکار کا ذبح کرنا: سمندری شکار کی موت ہی اس کا ذبح ہے،بس اس کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اسے زندہ نہ کھایا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((أُحِلَّتْ لَنَا مَیْتَتَانِ:اَلْحُوتُ وَالْجَرَادُ))’’دو مردہ چیزیں ہمارے لیے حلال ہیں:مچھلی اور ٹڈی۔‘‘[3] اور بری جانور اگر زندہ ہاتھ لگ جائے تو اس کا ذبح کرنا ضروری ہے،ذبح کیے بغیر اس کا کھانا جائز نہیں ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَمَا صِدْتَّ بِکَلْبِکَ غَیْرِ مُعَلَّمٍ فَأَدْرَکْتَ ذَکَاتَہُ فَکُلْ))’’اور جو تو نے نہ سدھائے ہوئے کتے کے ذریعے سے شکار کیا اور(پھر)ذبح کر لیا تو اسے کھا لے۔‘‘[4] اگر مردہ ملے تو اس کا کھانا اس وقت جائز ہے،جب وہ درج ذیل شرائط پر پورا اترتا ہو: 1: شکار کرنے والا ایسا شخص ہو جو ذبح کر سکتا ہو،مثلاً:یہ کہ وہ مسلمان،عاقل اور سمجھدار ہو۔ 2: تیر چلاتے وقت یا کتا چھوڑتے وقت اس نے ’’بسم اللہ‘‘ پڑھی ہو۔ارشاد نبوی ہے:((مَا صِدْتَّ بِقَوْسِکَ فَذَکَرْتَ اسْمَ اللّٰہِ فَکُلْ۔وَمَا صِدْتَّ بِکَلْبِکَ غَیْرِ مُعَلَّمٍ فَأَدْرَکْتَ ذَکَاتَہُ فَکُلْ))
[1] المآئدۃ 2:5۔ [2] اس میں اشتراک کی ایسی چیز نہیں جو علت تحریم بن جائے۔ [3] [حسن] السنن الکبرٰی للبیھقي: 254/1، وسنن ابن ماجہ، الصید، باب صید الحیتان والجراد، حدیث: 3218، وھو أطول منہ۔ یہ روایت مرفوعاً معمولی ضعیف ہے اور موقوفًا صحیح ہے۔ امام بیہقی نے بھی موقوف کو صحیح قرار دیا ہے، تاہم موقوف بھی مرفوع ہی کے حکم میں ہے۔ [4] صحیح البخاري، الذبائح والصید،باب صید القوس، حدیث: 5478، وصحیح مسلم، الصید والذبائح، باب الصید بالکلاب المعلمۃ:، حدیث: 1930۔