کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 657
کا فرمان ہے:((مَنْ نَّذَرَ أَنْ یُّطِیعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ))’’جو اللہ کی اطاعت کی نذر مانتا ہے،وہ اسے پورا کرے۔‘‘[1] اور اگر اللہ نے اس کی حاجت پوری نہیں کی تو پھر نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔ 4: مخلوق کے فعل کے ساتھ مقید نذر:اسے ’’نذر لجاج‘‘ بھی کہا جاتا ہے،مثلاً:کوئی شخص یہ کہے کہ اگر تو نے فلاں کام کیا تو میں ایک ماہ کے روزے رکھوں گا یا اپنے مال میں سے اتنی خیرات کروں گا۔اس کا حکم یہ ہے کہ نذر والے کو اختیار ہے،چاہے اسے پورا کرے یا قسم کا کفارہ ادا کرے،جب نذر سے متعلق کام میں وہ ’’حانث‘‘ ہو جائے،اس لیے کہ آپ کا فرمان ہے:((لَا نَذْرَ فِي مَعْصِیَۃٍ وَّلَا غَضَبٍ،وَکَفَّارَتُہُ کَفَّارَۃُ الْیَمِینِ))’’اللہ کی نافرمانی کی اور غصے میں نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔‘‘[2] کیونکہ یہ ’’نذر لجاج‘‘ عام طور پر غصے کے وقت ہوتی ہے،جب مخاطب کو کسی کام سے روکنا مطلوب ہوتا ہے یا اس کے ترک کرنے سے منع کرنا ہوتا ہے۔ 5: نذر معصیت:کسی حرام کام کے ارتکاب کی نذر یا کسی فرض کے ترک کی نذر،مثلاً:کسی مومن کو مارنے کی نذر یا نماز چھوڑ دینے کی نذر۔اس کا حکم یہ ہے کہ اس کا پورا کرنا حرام ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((مَنْ نَّذَرَ أَنْ یُّطِیعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ،وَمَنْ نَّذَرَ أَنْ یَّعْصِیَہُ فَلَا یَعْصِہِ)) ’’جو اللہ کی اطاعت کی نذر مانے وہ اسے پورا کرے اور جو اللہ کی نافرمانی کی نذر مانے وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘[3] البتہ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ نافرمانی کی نذر والا ’’کفارئہ یمین‘‘ ادا کرے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَا نَذْرَ فِي مَعْصِیَۃٍ،وَکَفَّارَتُہُ کَفَّارَۃُ یَمِینٍ))’’نافرمانی میں کوئی نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کے کفارے کی طرح ہے۔‘‘[4] 6: ایسی نذر جو مسلمان کی ملکیت میں نہیں یا اس کو پورا کرنے کی اس میں استطاعت نہیں:مثلاً:یوں کہے کہ میں فلاں کا غلام آزاد کروں گا یا ہزاروں من سونا خیرات کروں گا۔اس کا حکم یہ ہے کہ اس میں ’’کفارئہ یمین‘‘ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:((لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِیمَا لَا یَمْلِکُ))’’ابن آدم جس کا مالک نہیں ہے،اس میں نذر نہیں۔‘‘[5]
[1] صحیح البخاري، الأیمان والنذور، باب النذر في الطاعۃ:، حدیث: 6696۔ [2] [ضعیف] سنن النسائي، الأیمان والنذور، باب کفارۃ النذر، حدیث: 3878۔ [3] صحیح البخاري، الأیمان والنذور، باب النذر في الطاعۃ:، حدیث: 6696۔ [4] [صحیح] سنن أبي داود، الأیمان والنذور، باب من رأی علیہ کفارۃ إذا کان في معصیۃ، حدیث: 3290۔ زہری کے سماع کے لیے دیکھیے سنن النسائي، حدیث : 3869۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ [5] [حسن] سنن النسائي، الأیمان والنذور، باب کفارۃ النذر، حدیث: 3880، وسنن أبي داود، الأیمان والنذور، باب الیمین في قطیعۃ الرحم، حدیث: 3274 وإسنادہ حسن۔