کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 650
ایک اور مسئلہ: ایک شخص فوت ہوگیا اور نواسی،حقیقی بھانجا،مادری بھانجا اور پدری بھتیجی چھوڑ گیا۔ اس صورت میں نواسی اپنی ماں کی وراثت نصف ترکہ لے گی اور حقیقی بھانجا اپنی ماں کا حصہ باقی نصف لے گا اور مادری بہن کے بیٹے کو کچھ نہیں ملے گا۔اس لیے کہ اس کی ماں(اخت لام)صلبی بیٹی کی موجودگی میں محروم ہوتی ہے۔اسی طرح پدری بھائی کی بیٹی بھی محروم ہے،اس لیے کہ حقیقی بہن پدری بھائی کے لیے حاجب ہے،ان کی فروع(شاخوں)میں بھی یہی ضابطہ جاری ہو گا۔ 2 نواسی 1 حقیقی بھانجا 1 مادری بھانجا ۔ پدری بھتیجی ۔ ایک اور مسئلہ: ایک شخص فوت ہو گیا اور ایک خالہ اور ایک پھوپھی چھوڑ گیا۔اس مسئلہ میں خالہ کے لیے ایک تہائی ہے،اس لیے کہ میت کی ماں جس کی وجہ سے خالہ حصہ لے رہی ہے،کے لیے بھی تہائی تھا اور باقی دو تہائی پھوپھی کا حق ہے،اس لیے کہ یہ میت کے باپ کی نسبت سے وارث ہے جو کہ عصبہ کی حیثیت سے باقی کا مستحق تھا۔[1] 3 خالہ 1 پھوپھی 2 تنبیہات: 1: ذوی الفروض اور عصبہ کی موجودگی میں ذوی الارحام وارث نہیں ہوتے،اس لیے کہ اصحاب الفروض کے حصص سے جو بچ جاتا ہے،وہ بھی ان کے فروض کے مطابق ان پر رد کر دیا جاتا ہے،اِ لَّا یہ کہ ذوی الفروض میں فقط خاوند یا بیوی ہو تو باقی ان پر رد نہیں ہوتا بلکہ ذوی الارحام کو دے دیا جاتا ہے۔مثلاً:ایک شخص فوت ہو گیا اور مادری یا پدری بھائی اور پھوپھی چھوڑ گیا۔اس صورت میں کل ترکہ اس کا مادری یا پدری بھائی لے گا،پھوپھی چونکہ ذوی الارحام سے ہے،لہٰذا اسے کچھ نہیں ملے گا۔اسی طرح ایک شخص ماں اور خالہ چھوڑ گیا تو کل ترکہ بطور فرض و رد ماں کو ملے گا،خالہ محروم رہے گی۔ہاں اگر کوئی شخص بیوی اور بھائی کی بیٹی چھوڑ گیا تو بیوی کو چوتھا حصہ ملے گا اور باقی بھائی کی بیٹی کا ہے،اس لیے کہ اسے اس کے باپ،یعنی میت کے بھائی کے قائم مقام قرار دیا گیا جو کہ عصبہ ہے اور
[1] دو تہائی (2/3)مکمل کرنے کی خاطرکیونکہ قرآن میں ہے اگر بہنیں وارث ہوں تو ان کے لیے کل ترکہ سے دو تہائی ہے۔ ( النسآء 176:4)