کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 647
ایک اور مثال:ایک شخص فوت ہو گیا اور بیوی،ماں اور دو بھائی چھوڑ گیا اور بھائیوں میں سے ایک مفقود ہے۔بیوی کو چوتھا حصہ دیا جائے گا کہ گم شدہ کے وجود و عدم سے اس کا حصہ متاثر نہیں ہوتا اور ماں کو چھٹا یقینی حصہ دیا جائے گا اور بھائی کو باقی کا نصف(سات)دیا جائے گا،اس لیے کہ یہی اس کا یقینی حصہ ہے اور باقی موقوف ہو گا اور اگر گم شدہ وارث زندہ ثابت ہوا تو موقوف حصہ لے گا اور اگر اس کی موت کا پتہ چل گیا تو باقی سے ماں کو تہائی مکمل کر کے بقیہ(تین)کا مالک بھائی ہو گا۔ مسئلہ بارہ اور تصحیح چوبیس سے ہو گی،صورت تقسیم نقشہ میں واضح ہے(ٹیبل:24) 1 2 12 24 12 24 بیوی 3 6 3 6 ماں 2 4 4 4 بھائی 7 7 5 7 بھائی 7 . . ملاحظات: 1: صورت مسئلہ کے حل میں دو تصحیح کی گئی ہیں۔ایک میں مفقود زندہ تصور کیا گیا تو تصحیح چوبیس سے ہوئی کیونکہ دونوں بھائیوں پر سہام میں کسر واقع ہوئی ہے اور دوسری تصحیح مفقود کو میت قرار دے کر بارہ سے کی گئی۔ 2: جب ہم نے دونوں تصحیح کے مابین نسبت پر غور کیا تو توافق بنصف السدس(بارہ)ہوئی۔تصحیح اول(24)کا وفق(2)تصحیح ثانی پر درج کیا اور تصحیح ثانی(12)کا وفق(1)تصحیح اول پر لکھا۔جب مقام تصحیح کو ضرب دی تو چوبیس حاصل ہوئے جسے جامعہ اخیرہ میں درج کیا،اور یہی جامعہ تصحیح ہے۔ 3: مفقود کی حیات جن ورثاء کے حق میں نقصان دہ تھی،ان کو کم تر دینے کی خاطر ہم نے یہ عمل اختیار کیا کہ زوجہ کو تصحیح سے جو(چھ)ملے تھے،اسے ایک سے ضرب دی تو چھ ہی رہے،جنھیں اس کے سامنے جامعہ تصحیح کے خانہ میں درج کر دیا۔اس طرح ماں کو تصحیح سے جو(چار)ملے تھے،اسے بھی ایک سے ضرب دی تو چار اس کے خانہ میں درج کر دیے اور بھائی کے سات کو حسب سابق ایک سے ضرب دی تو سات ہی ہوئے،جو جامعہ تصحیح کے تحت بھائی کے خانہ میں لکھ دیے۔ 4: چوبیس میں سے سترہ سہام مجموعی طور پر جامعہ تصحیح میں درج ہو گئے،باقی سات سہام مفقود کی موت و حیات کے فیصلہ تک موقوف رہے۔اگر زندہ ہوا تو اسے یہ سات سہام مل جائیں گے،وگرنہ چار ماں کو ملیں گے،جس سے اس کے آٹھ ہو جائیں گے،جو کل مال کی تہائی اور اس کا استحقاق ہے اور باقی موجود بھائی کو مل جائیں گے،جس سے اس کے کل