کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 645
مسئلہ کا حل اور وضاحت:اس مسئلہ کے حل میں درج ذیل چار امور ملحوظ رہیں: 1:ہم نے مسئلہ کی تصحیح دو بار کی۔ایک بار باعتبار مذکر کے اور دوسری بار باعتبار مؤنث کے۔ 2:جب ہم نے دونوں تصحیحو ں پر غور کیا تو نسبت تخالف پائی تو ایک کامل عدد تصحیح کو دوسرے کامل عدد میں ضرب دی تو حاصل ضرب چھ ہوئے۔پھر ہم نے چھ کو عدد احوال(دو)میں ضرب دی تو بارہ حاصل ہوئے جسے ہم نے جامعہ تصحیح(جامعہ کبرٰی)قرار دیا۔ 3:جامعہ تصحیح کے عدد بارہ کو ہر فریضہ(تصحیح)پر تقسیم کیا تو تصحیح اول سے چھ کا عدد حاصل ہوا جو اوپر درج کر دیا اور تصحیح ثانی سے چار حاصل ہوا جسے اوپر درج کر دیا۔ 4:ہر وارث کو دونوں تصحیحوں میں سے جو سہام ملے انھیں اس کے اوپر والے عدد سے ضرب دی تو مجموعی طور پر دس ہوئے جسے عدد احوال(دو)پر تقسیم کیا تو پانچ حاصل ہوئے،جسے خنثیٰ کے بالمقابل جامعہ تصحیح کے نیچے درج کر دیا اور یہ اس کا حصہ ہے اور اسی طرح بیٹے کو چودہ حاصل ہوئے جو عدد احوال پر تقسیم کرنے سے سات ہوئے۔یہ بیٹے کا حصہ ہے جسے اس کے بالمقابل جامعہ تصحیح میں درج کر دیا،کل بارہ ہوئے۔ ایک اور مثال:وہ دو بیٹے اور ایک خنثیٰ چھوڑ کر فوت ہوا۔صورت مسئلہ یوں ہو گی۔اس مثال کے حل میں بھی طریقۂ عمل سابقہ طریقہ سے مختلف نہیں ہے۔حل: 10 6 3 5 30 بیٹا 1 2 11 بیٹا 1 2 11 خنثٰی 1 1 8 اس باب میں بعض اہل علم کا طریقۂ تقسیم ایک اور بھی ہے،وہ یہ کہ خنثیٰ کو مذکر سمجھ کر مسئلہ بنایا جائے،پھر مؤنث سمجھ کر مسئلہ کی تصحیح ہو۔جس صورت میں خنثیٰ کے علاوہ ورثاء کا کم حصہ بنتا ہو،وہ دیا جائے اور باقی ترکہ صورت حال واضح ہونے تک محفوظ کر لیا جائے یا پھر کسی بھی تقسیم پر باہم مصالحت کر لیں۔ اس میں طریقۂ عمل یہ ہے کہ خنثیٰ کو مذکر سمجھ لیا جائے کیونکہ ورثاء کا کم حصہ یقینی ہے اور باقی حصہ محفوظ کر لیا جائے۔گزشتہ مثال میں ایک بیٹا اور ایک خنثیٰ تھا،اس لیے دو تصحیحوں کی ضرورت ہوئی،یعنی اولاً مسئلہ دو سے بنا،اس صورت میں خنثیٰ کو مذکر(بیٹا)سمجھا گیا۔پھر ثانیاً مسئلہ تین سے بنا جس میں خنثیٰ کو مؤنث(بیٹی)سمجھا گیا۔دونوں تصحیحوں میں