کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 642
لہٰذا عمل درست ہوا اور یہی مطلوب تھا۔٭ مناسخہ اور اس کا طریقۂ کار: کسی میت کے ترکہ کی تقسیم سے قبل اس کا کوئی وارث فوت ہو جائے تو میت ثانی کے ورثاء کے حصص کی معرفت جس عمل سے ہوتی ہے،اسے مناسخہ کہتے ہیں۔ ٭ طریق کار: اس میں طریق کار یہ ہے کہ پہلے میت اول کے مسئلہ کی تصحیح کرو۔پھر میت ثانی کے آگے علامت(میت)’’ت‘‘ درج کرو۔پھر میت اول کے ورثاء میں سے جو میت ثانی کا بھی وارث ہو،اس کی میت ثانی سے جدید قرابت لکھ دو،مثلاً:ایک عورت جو میت اول کی بیوی تھی اور دوسری میت کی ماں ہے تو(ماں)لکھ دو،اس کا اندراج ترکہ اولیٰ سے ملنے والے سہام کے سامنے کرو۔اور اگر(میت ثانی کے)نئے وارث ایک یا زیادہ ہوں تو ان کو جدول اول کے نیچے الگ جدول میں درج کرو۔پھر میت ثانی کے مسئلہ کی تصحیح کرو۔پھر میت ثانی کی تصحیح اور اس کے ہاتھ میں موجود سہام کے درمیان غور کرو،اگر تصحیح ثانی کے مطابق سہام تقسیم ہو جائیں تو پہلی تصحیح کافی ہے،مثلاً:ایک عورت خاوند ماں،بیٹا اور بیٹی چھوڑ گئی،متوفیہ کے ترکہ کی تقسیم سے پہلے ہی اس کا خاوند بھی مذکور بیٹا اور بیٹی چھوڑ کر مر گیا۔مسئلہ اولیٰ بارہ سے بنا،پھر بیٹا اور بیٹی کے سہام میں کسر واقع ہونے سے چھتیس(36)سے تصحیح ہوئی۔میت ثانی کا مسئلہ تین سے بنا،جبکہ اس کے سہام نو تھے جو میت اول سے ملے،یہ سہام اس کے مسئلہ تین کے مطابق ورثاء میں تقسیم ہو سکتے ہیں۔لہٰذا دونوں مسئلوں کی تصحیح چھتیس سے ہی قائم رہی۔اسے آخر میں ’’جامعہ مناسخہ‘‘ میں درج کیا۔اب تمام سہام اسی جامعہ کے تحت درج کرو۔مسئلہ ثانیہ سے جس کا کوئی حصہ نہیں اس کے سہام جامعہ مناسخہ میں وہی لکھو جو اسے مسئلہ اولیٰ سے ملے ہیں اور جس کو مسئلہ ثانیہ سے بھی کچھ ملا ہے اسے جامعۃ الفریضہ کے اوپر درج شدہ وفق سے ضرب دو۔پھر حاصل ضرب میں وہ سہام بھی جمع کر لو جو مسئلہ اولیٰ سے اسے ملے ہیں۔پھر اسے(مجموعہ کو)جامعہ مناسخہ میں درج کر لو۔اس طرح: 3 3 12 36 3 36 خاوند 3 9 ت . . ماں 2 6 . . 6 بیٹا 7 14 بیٹا 2 20 بیٹی 7 بیٹی 1 10 ٭ صورت مسئلہ کے حل میں مولف(حفظہ اللہ)نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مذہب اختیار کیا ہے جو اس صورت میں ماں کو کل مال کا ثلث دیتے ہیں جبکہ جمہور کے نزدیک اس مسئلہ میں ماں کو بیوی / خاوند کے حصے کے بعد باقی مال کا ثلث ملے گا،اور اصل مسئلہ چار سے ہے۔(عبدالولی)