کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 623
واضح ہو کہ اس صورت میں اگر مرنے والے(خاوند)کی کئی بیویاں ہوں تو وہ سب ثمن،یعنی آٹھویں حصے کو آپس میں برابر تقسیم کر لیں گی۔ ٭ ثلثان(دو تہائی2/3)مال کے کل تین حصوں میں سے دو حصے: اس کے درج ذیل چار قسم کے وارث ہوتے ہیں: 1: دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں::جب ان کے ساتھ میت کا بیٹا،یعنی ان کا بھائی نہ ہو۔ 2: دو یا دو سے زیادہ پوتیاں::یہ اس وقت 2/3کی وارث ہوتی ہیں،جب میت کی صلبی(حقیقی)اولاد:بیٹے،بیٹیاں یا پوتا،یعنی ان کا بھائی نہ ہو۔ 3: دو یا دو سے زیادہ حقیقی بہنیں::یہ اس وقت 2/3 کی مستحق ہوں گی،جب میت کا باپ،مذکر و مؤنث حقیقی اولاد اور حقیقی بھائی موجود نہ ہو۔ 4: دو یا دو سے زیادہ پدری بہنیں:جب ان کے ساتھ میت کا باپ،مذکر و مؤنث صلبی اولاد اور حقیقی بہن بھائی یا پدری بھائی موجود نہ ہوں۔ ٭ ثلث(ایک تہائی1/3)کل تین حصوں میں سے ایک: درج ذیل تین افراد اس(حصے)کے وارث ہیں: 1: ماں:اگر مرنے والے بیٹے،بیٹی کی اپنی مذکر و مؤنث اولاد نہ ہو یا مذکر اولاد کی اولاد نہ ہو اور نہ اس کے دو یا دو سے زیادہ مطلقاً بھائی بہنیں ہوں۔ 2: دو یا دو سے زیادہ مادری بہن بھائی خواہ وہ صرف بہنیں ہوں یا صرف بھائی۔بشرطیکہ مرنے والے کا باپ،دادا اور اولاد یا بیٹے کی اولاد نہ ہو،یعنی میت کلالہ ہو۔٭ 3: دادا:اگر میت کے بہن بھائی موجود ہوں اور ایک تہائی(1/3)اس کے لیے بڑا(کافی اور)وافر حصہ ہو،تاہم یہ اس صورت میں ہو گا جب دو سے زیادہ بھائی یا چار سے زیادہ بہنیں ہوں(ورنہ پھر مقاسمہ ہو گا)۔ تنبیہ:باقی مال کا ثلث::یہ دو صورتیں ہیں جن میں ماں کو کل ترکے کا ثلث(1/3)کے بجائے بیوی یا خاوند کو دے کرباقی مال کا ثلث ملتا ہے: 1: ایک عورت فوت ہوگئی اور اپنے پیچھے صرف خاوند،باپ اور ماں کو چھوڑ گئی،اس صورت کا مخرج(اصل مسئلہ)چھ سے بنے گا:نصف(چھ کا نصف تین)خاوند کے لیے اور باقی نصف(تین)میں سے ماں کے لیے تہائی،یعنی ایک ہو گا،جبکہ باقی دو حصے عصبہ ہونے کی وجہ سے باپ کو مل جائیں گے۔ 2: ایک شخص فوت ہو گیا اور اپنے پیچھے صرف بیوی،ماں اور باپ کو چھوڑ گیا تو اس کا مسئلہ چار سے بنے گا،جس میں ٭ بہن بھائی حقیقی ہوں،پدری ہوں یا مادری ہوں،یہ صرف اس میت کے وارث ہوتے ہیں جو کلالہ ہو،یعنی اس کی اولاد ہو نہ باپ۔(ع،ر)