کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 617
ا لّا یہ کہ تربیت کرنے والی خود ہی ’’حق حضانت‘‘ نہ لینا چاہے۔یاد رہے کہ بچے کا نفقہ اور تربیت کرنے والی کی اجرت کا معیار بچے کے والد کے مالی حالات اور استعداد کے مطابق ہو گا،اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللّٰهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا﴾ ’’وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جسے روزی کی تنگی ہے تو جو اللہ نے اس کو دیا ہے،اس کے مطابق خرچ کرے۔اللہ ہر نفس کو اسی کا پابند کرتا ہے،جو اس نے اس کو دیا۔‘‘[1] زیر پرورش بچے کا ماں کے پاس آنا جانا: سات سال کی عمر میں بچے کو اگر اختیار دیا گیا اور اس نے ماں کا انتخاب کرلیا تو رات کے وقت اس کے پاس رہے گا اور دن کے وقت باپ کے پاس اور اگر اس نے باپ کو اختیار کیا ہے تو دن رات اس کے پاس ہی رہے گا،اس لیے کہ دن میں باپ کے پاس رہنے سے اکثر حالات میں اس کی تعلیم و تربیت بہتر طریق سے ہو گی،جبکہ ماں کے پاس رہنے میں اس کا امکان عام حالات میں کم ہے۔مگر اس صورت میں جبکہ اس نے باپ کو اختیار کیا ہے،وہ جس وقت بھی ماں کو ملنے جانا چاہے تو اسے نہیں روکا جائے گا،اس لیے کہ صلہ رحمی واجب ہے اور نافرمانی حرام ہے۔ ٭ بچے کے ساتھ سفر کرنا: اگر والدین میں سے کوئی ایک سفر پر جانا چاہتا ہے جس کے بعد وہ اپنے شہر واپس آجائے گا تو نابالغ بچہ ان میں سے مقیم کے پاس رہے گا اور اگر سفر پر جانے والا واپسی کا ارادہ نہیں رکھتا تو پھر بچے کی مصلحت کو دیکھا جائے،اگر اس کے لیے سفر پر جانا بہتر ہے تو چلا جائے ورنہ مقیم کے پاس رہے،اس لیے کہ اس بارے میں اصل ہدف زیر تربیت بچے کی مصلحت ہے۔ ٭ زیر پرورش بچہ پرورش کنندہ کے پاس امانت ہے: تربیت کرنے والی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے زیر تربیت بچہ اس کے پاس امانت ہے جس کی نگہداشت اور حفاظت اس کی ذمہ داری قرار پائی ہے،اگر وہ محسوس کرتی ہے کہ وہ اس کام سے عاجز ہے اور بھرپور انداز میں اس کی تربیت نہیں کر سکتی تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس سے دست بردار ہو جائے اور بچہ کسی دوسرے کے حوالے کر دے جو اس کی صحیح تربیت و حفاظت کر سکے۔باپ سے’ ’اجرت حضانت‘‘ وصول کرنا ہی اس کا اصل مقصد نہیں ہونا چاہیے جس کی وجہ سے وہ نااہلی کے باوجود بچے کو اپنے پاس رکھنے پر بضد رہے بلکہ بچے کے متولی کی طرح اس کے پیش نظر بھی محض بچے کی مصلحت ہونی چاہیے،یعنی اس کی جسمانی،عقلی اور روحانی تربیت۔قاضی پر بھی لازم ہے کہ وہ ہمیشہ اس بارے میں
[1] الطلاق 7:65۔