کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 613
3: ماں باپ کا نفقہ اولاد پر ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ ’’اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک اختیار کرو۔‘‘[1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اچھے رویے کے لیے سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ نے تین بار فرمایا:’’تیری ماں اور چوتھی بار فرمایا:تیرا باپ۔‘‘[2] 4: چھوٹی اولاد کا خرچ والد کے ذمے ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا﴾ ’’اور اس میں سے ان(اولاد)کو روزی دو اور لباس مہیا کرو اور ان کے لیے اچھی بات کہو۔‘‘[3] 5: خادم کا خرچ اس کے سردار پر ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لِلْمَمْلُوکِ طَعَامُہُ وَکِسْوَتُہُ،وَلَا یُکَلَّفُ مِنَ الْعَمَلِ مَالَا یُطِیقُ)) ’’غلام کے لیے کھانا اور لباس رواج کے مطابق ہے اور اس سے اتنا کام ہی لیا جائے جو وہ برداشت کر سکے۔‘‘[4] 6: جانوروں کی ذمہ داری ان کے مالکوں پر ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((دَخَلَتِ امْرَأَۃٌ النَّارَ فِي ھِرَّۃٍ رَبَطَتْھَا،فَلَا ھِيَ أَطْعَمَتْھَا وَلَا ھِيَ أَرْسَلَتْھَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتّٰی مَاتَتْ ھَزْلًا)) ’’ایک عورت بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی،اس نے اسے باندھے رکھا،نہ کھانا دیا اور نہ اسے چھوڑا تاکہ زمین کے جانور کھا کر گزارہ کرتی حتی کہ وہ بھوکی مر گئی۔‘‘[5] ٭ نفقے کی واجب مقدار: نفقے میں کھانے اور پینے کی مقدار میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ اتنی ہے جس سے زندگی قائم رہ سکے اور لباس جو گرمی،سردی سے بچائے اور رہائش جو آرام اور رہنے کے لیے کافی ہو۔جبکہ اختلاف کثرت و قلت میں ہے یا عمدہ اور گھٹیا ہونے میں ہے اور یہ دینے والے اور لینے والے کے اپنے اپنے احوال پر مبنی ہوتا ہے،اس لیے مناسب یہی ہے کہ یہ معاملہ مسلمان قاضیوں کے سپرد کیا جائے۔وہی مختلف احوال و ظروف اور عادات کا جائزہ لے کر نفقے کی مقدار اور معیار کاتعین کریں گے۔
[1] البقرۃ 83:2۔ [2] صحیح البخاري، الأدب، باب، من أحق الناس بحسن الصحبۃ، حدیث: 5971، وصحیح مسلم، البر والصلۃ والأدب، باب برالوالدین وأیھما أحق بہ، حدیث: 2548۔ [3] النسآء 5:4۔ [4] صحیح مسلم، الأیمان، باب إطعام المملوک مما یأکل:، حدیث: 1662۔ [5] صحیح البخاري، بدء الخلق، باب إذا وقع الذباب في شراب:، حدیث: 3318، وصحیح مسلم، التوبۃ، باب في سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی:، حدیث: 2619 بعد حدیث: 2756 واللفظ لہ۔