کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 610
’’اور جو تم میں سے فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ(بیویاں)چار ماہ دس دن تک انتظار کریں۔‘‘[1] 6: استحاضہ والی عورت جس کا مدت حیض گزر جانے کے باوجودخون نہیں تھم رہا،اگر حیض اور استحاضے کا امتیاز کر سکتی ہے یا اس کے لیے استحاضے کی بیماری سے پہلے ماہواری کے ایام کی عادت معروف ہے تو ’’ایام حیض‘‘ سے ہی عدت شمار کرے گی۔لیکن اگر وہ حیض و استحاضہ کے مابین امتیاز نہیں کر سکتی اور اس کے ہاں ایام حیض کی کوئی عادت بھی معروف نہیں ہے تو اس کی عدت تین ماہ ہے اور یہ حکم مستحاضہ کی نماز کے حکم سے اخذ کیا گیا ہے۔ 7: جس عورت کا خاوند غائب ہو جائے اور اس کی زندگی اور موت کا کوئی علم نہ ہو رہا ہو تو وہ خبر ملنے کی امید ختم ہونے سے لے کر چار سال تک خاوند کا انتظار کرے،پھر چار ماہ دس دن مزید عدت شمار کرے اس کے بعد چاہے تو نئی شادی کر سکتی ہے۔ ٭ ایک عدت میں دوسری عدت کی مداخلت: کبھی ایک عدت میں دوسری عدت کی مداخلت ہو جاتی ہے،جیسا کہ ذیل کی صورتوں میں ہے: 1: ’’طلاق رجعی‘‘ کی صورت میں ایک ماہواری یا دو ماہواری کے بعد خاوند فوت ہو جائے تو عدت طلاق،عدت وفات کی طرف منتقل ہو جائے گی،چنانچہ وہ چار ماہ دس دن عدت گزارے گی اور اس کا آغاز طلاق دینے والے خاوند کی وفات کے دن سے ہو گا،یہ اس لیے کہ رجعی طلاق والی عورت بیوی کے حکم میں ہوتی ہے،لہٰذا وفات کے بعد وہ بحیثیت بیوہ وفات کی عدت گزارے گی،جبکہ طلاق بائن والی عورت کا معاملہ اس کے برعکس ہے،چنانچہ اس کی عدت،عدت وفات کی طرف منتقل نہیں ہو گی،اس لیے کہ رجعی طلاق والی اپنے خاوند کی وارث ہوتی ہے،جبکہ طلاق بائن والی وارث نہیں ہوتی۔ 2: مطلقہ کو حیض یا دو حیض کے بعد اگر حیض آنا بند ہو جائے تو تین ماہ عدت شمار کرے گی۔ 3: چھوٹی نابالغہ مطلقہ یا بڑی عمر کی عورت جسے ماہواری نہیں آتی،اس کو ایک ماہ یا دو ماہ کے بعد ماہواری آ جائے تو اب وہ عدت تین ماہ نہیں بلکہ تین حیض شمار کرے گی لیکن اگر تین ماہ گزرنے کے بعد ماہواری آئے تو پھر اس کی عدت ختم ہو چکی ہے۔ 4: مطلقہ عورت جو مہینوں یا ’’ایام ماہواری‘‘ سے عدت شمار کر رہی ہے،اگر اس اثنا میں اس کا حمل ظاہر ہو جائے تو اس کی عدت ’’وضع حمل‘‘ ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾’’اور حمل والیوں کی عدت ’’وضع حمل‘‘ ہے۔‘‘[2]
[1] البقرۃ 234:2۔ [2] الطلاق 4:65۔