کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 609
اس تفسیر کے مطابق تیسرے’ ’حیض‘‘ کے آنے ہی پر عدت ختم ہو جائے گی(کیونکہ تین طہر پورے ہو چکے ہوں گے)اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ اگر’’حیض‘‘ کے دوران میں طلاق ہوئی ہے تو عدت میں تین حیض کی گنتی میں اس حیض کو شمار نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے علاوہ تین حیض کا مکمل ہونا ضروری ہو گا۔اور اگر لونڈی کو طہر میں طلاق ہوئی ہے تو اس کی عدت دو حیض ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’طَلَاقُ الْأَمَۃِ تَطْلِیقَتَانِ،وَعِدَّتُھَا حَیْضَتَانِ‘ ’’لونڈی کے لیے دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت دو ماہواری ہے۔‘‘[1] 2: جس عورت کو ماہواری ہی نہیں آتی،بڑھاپے کی و جہ سے یا کمسنی کی بنا پر اور اسے طلاق ہو گئی تو اس کی عدت تین ماہ ہے۔فرمان ربانی ہے: ﴿وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾ ’’تمھاری وہ عورتیں جو(عمر رسیدہ ہونے کی بنا پر)حیض سے مایوس ہو گئی ہیں،اگر تمھیں(ان کی عدت کے متعلق)شک ہے تو(سنو)ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی(یہی عدت ہے)جنھیں(کمسنی کی وجہ سے)ماہواری ابھی تک نہیں آئی۔‘‘[2] 3: مطلقہ حاملہ کی عدت ’’وضع حمل‘‘ ہے،خواہ آزاد ہو،یا لونڈی۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ ’’حمل والی عورتوں کی میعاد وضع حمل ہے۔‘‘[3] 4: وہ مطلقہ جو ماہواری والی ہو مگر کسی معروف سبب(رضاعت یا بیماری)کی بنا پر اسے حیض نہیں آ رہا تو وہ حیض آنے کا انتظار کرے گی،چاہے مدت طویل ہو جائے اور اگر حیض نہ آنے کا سبب معلوم نہیں تو اس کے لیے عدت ایک سال ہے۔نو ماہ ’’مدت حمل‘‘ اور تین ماہ ’’عدت‘‘ کے اور لونڈی ہو تو اس کے لیے گیارہ ماہ عدت ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین اور انصار میں یہی فیصلہ فرمایا تھا اور کسی نے انکار نہیں کیا تھا۔’’صاحب مغنی‘‘ نے اس روایت کو ابن منذر کی طرف منسوب کیا ہے۔) 5: جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے،اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا﴾
[1] [ضعیف] سنن أبي داود الطلاق، باب في سنۃ طلاق العبد، حدیث: 2189، وجامع الترمذي، الطلاق واللعان، باب ماجاء أن طلاق الأمۃ تطلیقتان، حدیث: 1182، وسنن الدارقطني: 39,38/4۔ اس کی سند مظاہر بن اسلم کی وجہ سے ضعیف ہے۔ راجح یہی ہے کہ لونڈی اور آزاد عورت کی عدت و طلاق میں فرق نہیں ہے، مذکورہ حدیث ضعیف ہے۔ میں یہ سب شامل ہے۔ [2] الطلاق 4:65۔ [3] الطلاق 4:65۔