کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 607
((أَیُّمَا امْرَأَۃٍ أَدْخَلَتْ عَلٰی قَوْمٍ مَّنْ لَیْسَ مِنْھُمْ فَلَیْسَتْ مِنَ اللّٰہِ فِي شَيْئٍ وَّلَنْ یُّدْخِلَھَا اللّٰہُ جَنَّتَہُ)) ’’جو عورت کسی برادری میں اس(بچے)کو داخل کر دیتی ہے،جو ان میں سے نہیں ہے تو اللہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور اسے ہر گز بہشت میں داخل نہیں کرے گا۔‘‘[1] 5: دونوں کے درمیان تفریق کرا دے اور اس کے بعد وہ کبھی اکٹھے نہ ہو سکیں گے۔فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((حِسَابُکُمَا عَلَی اللّٰہِ،أَحَدُکُمَا کَاذِبٌ،لَا سَبِیلَ لَکَ عَلَیْھَا))’’تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے،تم میں سے ایک جھوٹا ہے،(اور اے خاوند!)تیرا اس پر کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘[2] 6: لعان کرنے والے خاوند سے بچے کی نسبت کٹ جائے گی،یہ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے اور نہ وہ اس بچے پر خرچ کرے گا۔البتہ کچھ احکامات میں وہ بچہ اور خاونداحتیاطاً باپ بیٹے کی مانند ہیں،مثلاً:خاوند اس بچی سے نکاح نہیں کر سکے گا،نیز وہ بچی یا بچہ اس کی دیگر بیویوں سے پیدا شدہ اولاد کے لیے محرم قرار پائے گا۔اور اس کا الحاق ماں کے ساتھ ہو گا اور اسی کا وارث ہو گا،جیسا کہ دو لعان کرنے والوں کی اولاد کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے: ((أَنَّہُ یَرِثُ أُمَّہُ وَتَرِثُہُ أُمُّہُ))’’یہ اپنی ماں کا وارث ہے اور اس کی ماں اس کی وارث ہے۔‘‘[3] 7: اگر کبھی لعان کرنے والا مرد خود کو جھوٹا کہے تو اولاد کا الحاق اس کے ساتھ ہو جائے گا(اور اسے حد قذف لگائی جائے گی)۔ عدت کا بیان: ٭ عدت کی تعریف: خاوند سے مفارقت کے بعد عورت ایک مخصوص مدت تک انتظار کرتی ہے،اس دوران میں وہ کسی سے منگنی یاشادی نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس مقصدکے لیے خود کو بنا سنوار سکتی ہے،اس مدت کو عدت کہتے ہیں۔ ٭ عدت کا حکم: خاوند سے ہر طرح کی جدائی کے بعد،خواہ اس کی زندگی میں ہوئی یا اس کی موت کی و جہ سے،عورت پر عدت گزارنا فرض ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ﴾’’اور مطلقہ عورتیں تین ماہواری تک انتظار کریں۔‘‘[4]
[1] [صحیح] سنن أبي داود، الطلاق، باب التغلیظ في الانتفاء، حدیث: 2263، وصحیح ابن حبان: 418/9، حدیث: 4108، والمستدرک للحاکم: 203/2۔ [2] صحیح البخاري، الطلاق،باب قول الإمام للمتلاعنین: إن أحدکما کاذب:، حدیث: 5312۔ [3] [ضعیف] مسند أحمد: 216/2۔ اس کی سند محمد بن اسحاق کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔صحیح بخاری (حدیث: 5315)میں ہے کہ آپ نے بچے کا ماں کے ساتھ الحاق فرمایا۔ اور ابن شہاب زہری فرماتے ہیں : ’ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّۃُ فِي مِیرَاثِھَا أَنَّھَا تَرِثُہُ وَیَرِثُ مِنْھَا مَا فَرَضَ اللّٰہُ لَہُ‘ ’’پھر یہی سنت جاری ہوگئی کہ والدہ بچے کی اور بچہ والدہ کا وارث ہوگا، جو کچھ اللہ نے اس (بچے)کے لیے رکھا ہے اسے وہ لے گا۔‘‘ صحیح البخاري، حدیث : 5309۔ (ع،ر) [4] البقرۃ 228:2۔