کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 606
٭ لعان کے احکام: 1: مرد اور عورت دونوں عاقل و بالغ ہوں تو لعان ہو گا،اس لیے کہ مجنون اور نابالغ غیر مکلف ہیں،جیسا کہ حدیث میں ہے: ((رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَۃٍ:عَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ،وَعَنِ الصَّغِیرِ حَتّٰی یَکْبُرَ،وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتّٰی یَعْقِلَ أَوْیُفِیقَ)) ’’تین شخص مرفوع القلم ہیں،سویا ہوا جاگنے تک،نابالغ لڑکا بڑا ہونے تک اور مجنون ذی شعور ہونے تک۔‘‘[1] 2: مرد صاف دعویٰ کرے کہ اس نے عورت کو زنا کرتے دیکھا ہے اور انکار حمل میں یہ دعویٰ کرے کہ اس نے اس عورت سے جماع ہی نہیں کیا یا اس مدت میں جماع نہیں کیا جس میں حمل ٹھہرا ہے،مثلاً:یہ دعویٰ کرے کہ اس عورت نے اس بچے کو چھ ماہ سے کم مدت میں جنم دیا ہے،ان دعووں کے بغیر لعان نہیں ہو گا،اس لیے کہ محض الزام اور شبہے کی بنیاد پر لعان کرنا مشروع نہیں ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ﴾ ’’اے ایمان والو!اکثر ظن سے بچو!بلاشبہ بعض ظن گناہ ہیں۔‘‘[2] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ‘ ’’خود کو(برے)ظن سے بچاؤ۔‘‘[3] محض الزام کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ اس عورت کو طلاق دے دے تاکہ دل کے وسوسوں کی شدت اور ضمیر کی ملامت سے بچ سکے۔ 3: حاکم ایمان والوں کی ایک جماعت کے سامنے لعان کا اجرا کرائے اور انھی الفاظ سے جو قرآن پاک میں مذکور ہیں۔ 4: حاکم کو چاہیے کہ خاوند کو اس انداز سے سمجھائے،جیسا کہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((أَیُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَہُ وَھُوَ یَنْظُرُ إِلَیْہِ،اِحْتَجَبَ اللّٰہُ مِنْہُ وَفَضَحَہُ عَلٰی رُؤُوسِ الْأَوَّلِینَ وَالْآخِرِینَ)) ’’جو شخص اپنے(حقیقی)بچے کا انکار کرتا ہے جبکہ وہ(بچہ)اس کی طرف دیکھ رہا ہو،اللہ اس سے حجاب کر لے گا اور پہلے پچھلے لوگوں کے سامنے اس کو رسوا کرے گا۔‘‘[4] اور عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق سمجھائے:
[1] [حسن] سنن ابن ماجہ، الطلاق، باب طلاق المعتوہ:، حدیث: 2041۔ [2] الحجرات 12:49۔ [3] صحیح البخاري، النکاح، باب لا یخطب علٰی خطبۃ أخیہ حتی ینکح أویدع، حدیث: 5143، وصحیح مسلم، البروالصلۃ، باب تحریم الظن:، حدیث: 2563 [4] [صحیح ] سنن أبي داود، الطلاق، باب التغلیظ في الانتفاء، حدیث: 2263، وصحیح ابن حبان : 418/9، حدیث: 4108، اسے امام حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔