کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 600
اس کو الگ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا تو اس پر ایک ’’طلاق بائن‘‘ واقع ہو گی(جس کے بعد دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے)اور اگر اس کا ارادہ اس کو واقعتا جدا کرنے کا تھا اور یہ کہ وہ اسے کسی صورت میں اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا تو تین طلاقیں نافذ ہوں گی،وہ اس مرد کے لیے حلال نہیں ہو گی،الاّ یہ کہ دوسرے کسی مرد کے ساتھ(دوام کی نیت سے)نکاح کرے(اور پھر کسی وجہ سے طلاق ہوجائے یا شوہر فوت ہوجائے اوردونوں صورتوں میں عدت گزر جائے تو پھر پہلے خاوند کے ساتھ دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔)اس طرح دلائل میں جمع اور تطبیق ممکن ہو گی اور امت کے افراد میں ’’جذبۂ ترحم‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے۔٭ تنبیہ:جس عورت پر تین طلاقیں واقع ہو جائیں اور پھر وہ دوسرے خاوند سے نکاح کر لے اور وہ عورت اس کے گھر آباد رہے پھر خاوند کی وفات یا اتفاقیہ طلاق کے نتیجے میں پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کر لے تو یہ پہلا خاوند پھر تین طلاقیں دینے کا مالک ہو جائے گا اور پہلے واقع کردہ طلاقیں ساقط ہو جائیں گی،البتہ جس نے پہلے ایک یا دو طلاقیں دی ہوں،عورت نے دوسری شادی کر لی اور پھر پہلے شوہر کے پاس آ گئی تو اس میں اختلاف ہے۔امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں:پہلے والی طلاقیں ساقط نہیں ہوں گی اور یہ اب باقی طلاق کا مالک ہے جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک وہ مکمل تین طلاقوں کا مالک ہے،اس لیے کہ دوسرا خاوند جب پہلے خاوند کی تین طلاقوں کو ساقط کر دیتا ہے تو اس کی دی ہوئی ایک یا دو طلاقوں کے ختم ہونے کا سبب کیوں نہیں ہو گا۔ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول بھی یہی ہے۔واللہ اعلم تنبیہ:جمہور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کہتے ہیں کہ غلام اپنی عورت کو صرف دو طلاقیں دے سکتا ہے،دوسری طلاق کے بعد وہ اس سے بائن(جدا)ہو جائے گی اور جب تک دوسرے مرد کے ساتھ نکاح نہ کرے،اس(غلام)کے لیے حلال نہیں ہو گی۔٭ ٭ ابن رشد اپنی کتاب بدایۃ المجتھد(46/2)میں لکھتے ہیں:جمہور کے مسلک کی بنیاد اس پر ہے کہ وہ طلاق کے اس ناجائز طریقے کو تین طلاقیں نافذ کر کے ختم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جب انھیں اس کے نقصانات کا مسلسل تجربہ ہو گا تو وہ اس طریقے سے طلاق دینا بند کردیں گے مگر اس طرح شریعت نے سوچ و بچار اور رجوع کرنے یا نہ کرنے کی مہلت دے کر جو رخصت و نرمی دی ہے،وہ باطل ہو جاتی ہے،جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:﴿لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا﴾(الطلاق 1:65)’’شائد کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی نئی راہ پیدا کر دے۔‘‘ یعنی مرد کے دل میں عورت کی رغبت پیدا کر دے اور وہ رجوع پر آمادہ ہو جائے اور اگر مسلک جمہور کے مطابق ایک دفعہ کی تین طلاقوں کو نافذ کر دیا جائے تو پھر اس کے بعد کس نئی بات کے پیدا ہونے کی توقع کی جائے؟ اس دور میں لوگوں کو بالعموم شریعت اسلامیہ کے اصل طریقۂ طلاق کا پتہ نہیں ہے بلکہ جاہل لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ جب تک تین کا لفظ نہیں بولیں گے طلاق واقع ہی نہیں ہو گی۔اس انداز کی صورت حال میں تین کا نفاذ عورتوں اور معاشرے پر زیادتی ہے جس کے نتیجہ میں کئی ایک پیچیدہ مسائل پیدا ہوتے ہیں جن پر توجہ دینا مفکرین علماء کے لیے انتہائی ضروری ہے۔نفس مسئلہ کی شرعی پوزیشن تفصیلاً ہم پہلے تحریر کر آئے ہیں۔(الاثری) ٭ جبکہ حافظ ابن حز م رحمہ اللہ اور دیگر محققین کا موقف یہ ہے کہ غلام کا بھی وہی حکم ہے جو عام اور آزاد مومن کا ہے،یعنی غلام بھی تین طلاق کا مالک ہے،یہ موقف راجح ہے جبکہ صحابۂ کرام میں سے اکثر سے مذکورہ موقف والی روایات سندًا ثابت نہیں۔(ع،و)