کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 60
’’اگر آج تم میں موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو میری پیروی کیے بغیر ان کے لیے کوئی چارہ نہ ہوتا۔‘‘[1] 3: کروڑوں مسلمانوں کا ایمان اور اعتقاد ہے کہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کی وحی ہے جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجی ہے۔وہ اسی یقین سے سرشار ہو کر اس کی تلاوت کرتے ہیں اور بہت سے مسلمانوں نے اسے حفظ بھی کر رکھا ہے اور وہ اس کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ عقلی دلائل: 1: قرآنِ کریم مختلف علوم کا خزینہ ہے۔کائنات کے بارے میں وقیع معلومات،تاریخی علوم،تشریعی اور قانونی ضابطے اور حربی وسیاسی اصول،سب کچھ اس عظیم کتاب میں موجود ہے مگر اس کا پیش کرنے والا ان پڑھ(اُمّی)ہے،یعنی کسی مکتب یا مدرسے میں اس نے تعلیم حاصل نہیں کی،یہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ یہ کتاب،اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی وحی ہے،کیونکہ عقل یہ باور نہیں کر سکتی کہ ایک ان پڑھ(اُمّی)اتنے علوم پر دسترس حاصل کر سکے۔ 2: اس کتاب کے نازل کرنے والے اللہ نے انسانوں اور جنوں کو چیلنج دیا ہے کہ اس کی مثل لاکر دکھائیں۔ارشادِ گرامی ہے: ﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا﴿٨٨﴾ ’’کہہ دو کہ اگر انس وجن اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ اس قرآن کی مثل بنا لائیں تو اس کی مثل نہ لا سکیں گے،اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔‘‘[2] عرب کے بڑے بڑے فصحاء وبلغاء بھی اس چیلنج میں شریک تھے کہ وہ اس کی مانند دس سورتیں،بلکہ ایک سورت ہی بنا لائیں۔مگر یہ سب عاجز رہے اور اس کی مثل نہ لا سکے۔یہ اس بات کی بہت بڑی اور قوی دلیل ہے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے۔ 3: قرآنِ پاک میں بعض ایسے امورِ غیبیہ کا تذکرہ کیا گیا ہے،جن میں سے بعض قرآن کے بیان کے مطابق بلاکم و کاست وقوع پذیر ہو چکے ہیں۔یہ بھی اس کی حقانیت کی دلیل ہے۔ 4: اس سے پہلے بھی آسمانی کتابیں نازل ہوئیں،جیسے تورا ت موسیٰ علیہ السلام پر اور انجیل عیسیٰ علیہ السلام پر۔تو ان کے بعد قرآن کے ’’مُنَزَّلٌ مِّنَ اللّٰہِ‘‘ ہونے کا انکار نہیں ہو سکتا،کیا عقل نزولِ قرآن کو محال قرار دیتی یا اسے ممنوع بتاتی ہے؟ نہیں
[1] [ضعیف] مسند أبي یعلٰی: 102/4، حدیث: 2135، ومسند أحمد : 338/3، وشعب الإیمان للبیھقي: 200/1، حدیث : 176، اس کی سند مجالد راوی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ لیکن شیخ البانی فرماتے ہیں ۔ ولکن الحدیث حسن عندي لأن لہ طرقًا عنداللالکائي والھروي وغیرھما۔ لیکن میرے نزدیک حدیث حسن ہے کیونکہ لالکائی اور ہروی وغیرہ کے ہاں اس کے اور طرق بھی ہیں ۔ ھدایۃ الرواۃ بتخریج المشکاۃ، باب الاعتصام، الفصل الثاني۔ (ع۔و) [2] بنیٓ إسرآء یل 88:17۔