کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 598
اور نہ ایسا لفظ جو طلاق کا ہم معنی ہو تو ایسی صورت میں اگر طلاق کی نیت ہے تو طلاق واقع ہو جائے گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک منکوحہ کو بایں الفاظ طلاق دی ہے:’اِلْحَقِي بِأَھْلِکِ‘ ’’تو اپنے اہل کے پاس چلی جا۔‘‘[1]
آپ نے اس جملے میں طلاق ہی مراد لی تھی لیکن اگر طلاق کی نیت نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوتی۔اس کی دلیل یہ ہے کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی تعمیل میں کہ’ ’بیوی سے الگ ہو جا اور اس کے قریب نہ جا‘‘ اپنی بیوی کو کہا تھا ’اِلْحَقِي بِأَھْلِکِ‘ کہ ’’اپنے اہل کے پاس چلی جا۔‘‘ چنانچہ وہ اپنے میکے چلی گئی اور طلاق واقع نہیں ہوئی تھی۔
یہ ان الفاظ کے بارے میں ہے جو طلاق کے معنی میں پوشیدہ اور غیر واضح ہیں اور اگر ایسا لفظ کہتا ہے جو صریح طلاق پر تو دلالت نہیں کرتا،البتہ طلاق کے مفہوم میں ظاہر ہے تو اس میں نیت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ لفظ کہتے ہی طلاق واقع ہو جائے گی،مثلاً:یہ کہے تو علیحدہ ہے تو بائن ہے،لہٰذا دوسرے مردوں کے لیے زینت کر لے۔
7:فوری اور معلق طلاق:
فوری نافذ شدہ طلاق کو منجز طلاق کہتے ہیں،مثلاً:خاوند کہے کہ تجھے طلاق ہے تو طلاق والی ہے تو یہ کہتے ہی طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر وہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر طلاق کو معلق کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اگر تو گھر سے نکلی تو تجھے طلاق ہے یا اگر تو نے یہ کام نہیں کیاتو تجھے طلاق ہے۔تو شرط حاصل ہونے کے بعد طلاق ہو جائے گی۔اسے ’’طلاق معلق‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
8:طلاق کا اختیار اور طلاق تملیک:
خاوند اپنی بیوی کو اگر کہتا ہے:’’تجھے میرے ساتھ رہنے یا الگ ہونے کا اختیار ہے۔‘‘ اور وہ طلاق اختیار کر لیتی ہے تو مطلقہ ہو جائے گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو اختیار دیا تھا تو انھوں نے آپ کو اختیار کر لیا تھا اس و جہ سے وہ مطلقہ نہیں قرار دی گئیں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا﴾
’’اے نبی!اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمھیں سامان دے کر اچھے انداز میں رخصت کر دیتا ہوں۔‘‘[2]
اور’ ’طلاق تملیک‘‘کی صورت اس طرح ہے کہ مرد اپنی عورت سے کہے:’’میں تجھے تیرے معاملے کا مالک بناتا ہوں ‘‘ یا’’تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے‘‘ اور عورت جواب میں طلاق لے لے تو ایک رجعی طلاق واقع ہو جائے گی۔٭
٭ امام مالک اور بعض دیگر فقہاء کے نزدیک اس صورت تملیک میں عورت تین طلاقیں اختیار کرلیتی ہے تو تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں،پھر مرد کو رجوع کا حق ہے اور نہ ہی وہ نکاح کر سکتا ہے۔(مؤلف)
[1] صحیح البخاري، الطلاق، باب من طلق:، حدیث: 5254، وفتح الباري: 357/9۔
[2] الأحزاب 28:33۔