کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 597
دے دے تو ان کے مابین بینونت کبرٰی(بڑی جدائی)واقع ہو جاتی ہے اور یہ عورت اس مرد کے لیے حلال نہیں،جب تک وہ دوسرے خاوند کے ساتھ نکاح نہ کرے۔٭ 4:طلاق رجعی: جس میں خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے،چاہے عورت راضی نہ بھی ہو۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا﴾ ’’اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھیں تو وہ انھیں واپس لانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔‘‘[1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو طلاق کے بعد رجوع کا حکم دیا تھا۔[2] رجعی طلاق’’مدخولہ عورت‘‘(جس سے خاوند جماع کر چکا ہو)کو تین سے کم طلاقوں کی صورت میں ہوتی ہے،جبکہ خاوند نے بیوی سے طلاق کا عوض نہ لیا ہو،رجعی طلاق والی عورت کے لیے عدت کے دوران میں نفقہ اور رہائش کا بندوبست مرد کے ذمے ہے۔عدت گزرنے کے بعد وہ مرد سے جدا قرار دی جاتی ہے،اگر مرد رجوع کرنا چاہتا ہے تو بلاتاخیر کہہ دے:’’میں تجھے واپس لیتا ہوں یا رجوع کرتا ہوں ‘‘ اور رجوع پر دو عادل گواہ بنانا مسنون ہے۔‘‘ 5:طلاق صریح: طلاق میں ایسے الفاظ استعمال کرنا کہ ان کے ساتھ ’ ’نیت طلاق‘‘کی ضرورت نہ ہو،مثلاً:یوں کہے کہ تجھے طلاق ہے یا تو مطلقہ ہے یا میں نے تجھے طلاق دے دی۔ 6:طلاق بالکنایہ: لفظ،طلاق کا مفہوم واضح نہ کرتا ہو،اگر اس سے ارادہ طلاق کا کرے تو طلاق ہو جائے گی،مثلاً:مرد کہتا ہے اپنے میکے چلی جا،گھر سے نکل جا یا میرے ساتھ کلام نہ کر وغیرہ۔ایسے الفاظ جن میں صریح ’’لفظ طلاق‘‘ نہ ہو ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سال میں ایک مجلس(موقع و محل)کی تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں(صحیح مسلم،الطلاق،باب طلاق الثلاث،حدیث:1472)،نیز مسند احمد(:1/265)میں ہے:’’رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک قرار دے کر رجوع کا اختیار دے دیا،چنانچہ رکانہ رضی اللہ عنہ نے رجوع کرلیا۔‘‘فتح الباری(362/9)شرح بخاری میں ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیک وقت تین طلاقیں دینے(جو کہ بدعی طلاق کی ایک صورت ہے)سے روکنے کے لیے تعزیری انداز پر ان کے تین ہی واقع ہونے کا حکم صادر فرمایا،جیسا کہ ان کے الفاظ ’إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ [قَدْ] کَانَتْ لَھُمْ فِیہِ أَنَاۃٌ فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْھِمْ فَأَمْضَاہُ عَلَیْھِمْ‘(صحیح مسلم،الطلاق،باب طلاق الثلاث،حدیث:1472)سے واضح ہے۔نیز آیت مبارکہ سے بھی یہ واضح ہے کہ ایک مجلس کی طلاق چونکہ ایک بار(مرۃ)میں واقع کردہ ہے،لہٰذا اس کے بعد امساک(رجوع)ہو سکے گا۔’ھٰذَا مَا عِنْدِي وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ‘(الاثری)
[1] البقرۃ 228:2۔ [2] صحیح البخاري، الطلاق، باب وقول اللّٰہ تعالٰی﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ ... وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ﴾ ، حدیث: 5251، و صحیح مسلم، الطلاق، باب تحریم طلاق الحائض، حدیث: 1471۔