کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 592
((فَمَضَتِ السُّنَّۃُ بَعْدُ فِي الْمُتَلَاعِنَیْنِ أَنْ یُّفَرَّقَ بَیْنَھُمَا ثُمَّ لَا یَجْتَمِعَانِ أَبَدًا)) ’’اس کے بعد دو لعان کرنے والوں میں یہ طریقہ جاری ہو گیا کہ انھیں جدا کر دیا جائے اور پھر کبھی وہ اکٹھے نہیں ہوں گے۔‘‘[1] ٭ عارضی محرمات: 1: بیوی کی بہن(سالی اپنے بہنوئی کے لیے)اس وقت تک حرام ہے،جب تک بیوی اس کے نکاح میں ہے،طلاق کے بعد عدت ختم ہو جائے یا بیوی فوت ہو جائے تو(سالی اور بہنوئی کے لیے نکاح کی)حرمت ختم ہو جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ﴾ ’’اور یہ کہ تم دو بہنوں کو(ایک نکاح میں)اکٹھا کرو(یہ تم پر حرام ہے۔)‘‘[2] 2: بیوی کی پھوپھی یا خالہ سے اس وقت تک نکاح نہیں ہو سکتا،جب تک کہ ان کی بھتیجی یا بھانجی ’’عقد‘‘ میں ہے،طلاق کے بعد عدت گزرنے یا اس کے فوت ہو جانے کی صورت میں یہ حلال ہیں۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:((نَھٰی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَنْ تُنْکَحَ الْمَرْأَۃُ عَلٰی عَمَّتِھَا أَوْ خَالَتِھَا)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ہے کہ پھوپھی یا خالہ پر بھتیجی یا بھانجی کا نکاح کیا جائے۔‘‘[3] 3: نکاح والی عورت کا نکاح،دوسری جگہ نہیں ہو سکتا،جب تک کہ پہلا نکاح قائم ہو(ہاں،اگر)طلاق ہو جائے یا بیوہ ہو جائے اور عدت گزر جائے تو دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے،اس لیے کہ محرمات کے تذکرے میں اللہ جل شانہ کا فرمان ہے:﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ﴾’’اور نکاح والی عورتیں(بھی تم پر حرام ہیں)۔‘‘ [4] 4: طلاق یا خاوند کی وفات کے بعد عدت گزارنے والی عورت سے عدت کے گزرنے تک نکاح نہیں ہو سکتا بلکہ(صراحت کے ساتھ)پیغام نکاح دینا بھی حرام ہے،البتہ اشارہ کنایہ کیا جا سکتا ہے،مثلاً:یہ کہے کہ میں آپ کے بارے میں دلچسپی رکھتا ہوں وغیرہ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَـٰكِن لَّا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّا أَن تَقُولُوا قَوْلًا مَّعْرُوفًا ۚ وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ﴾ ’’اور ان(عدت والی عورتوں)سے(نکاح کا)پوشیدہ وعدہ نہ لو،ہاں دستور کے مطابق بات کہہ سکتے ہو اور کتاب
[1] [ضعیف] سنن أبي داود، الطلاق،باب في اللعان،حدیث : 2250۔ اس کی سند ضعیف ہے اور اس کا کوئی شاہد بھی صحیح نہیں ہے۔ وصححہ الألباني۔ بخاری شریف میں ہے کہ آپ نے لعان کرنے والوں سے فرمایا:’’تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے تم میں سے ایک جھوٹا ہے (اے خاوند)تیرے لیے اس پر کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث: 5312)وَاللّٰہ أعلم (ع،ر)۔ [2] النسآء 23:4۔ [3] صحیح البخاري، النکاح، باب لا تنکح المرأۃ علٰی عمتھا، حدیث: 5108۔ [4] النسآء 24:4۔