کتاب: منہاج المسلم - صفحہ 587
اس نکاح کا حکم یہ ہے کہ جماع سے پہلے اس کو فسخ کرنا چاہیے اور اگر ’’دخول‘‘ ہو گیا ہو تو تب اس نکاح کو فسخ کیا جائے جس میں ’’مہر‘‘ نہیں ہے اور جس میں دونوں کا ’’مہر‘‘ مقرر ہے اس کو فسخ نہ کیا جائے۔ 3: نکاح حلالہ:عورت کو تین طلاقیں ہو جائیں تو وہ اپنے خاوند کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا﴾ ’’(اگر تیسری بار طلاق ہو جائے تو)وہ اس مرد کے لیے حلال نہیں،جب تک وہ دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے۔‘‘[1] اگر کسی شخص نے اس ارادے سے نکاح کیا ہے کہ اس عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال بنائے تو یہ نکاح باطل ہے۔٭ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَہُ‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’حلالہ‘‘کرنے والے اور جس کے لیے کیا جارہا ہے،دونوں پر لعنت کی ہے۔‘‘[2] اس کا حکم یہ ہے کہ یہ نکاح باطل ہونے کی بنا پر فسخ ہے،اس طرح عورت پہلے خاوند کے لیے جس نے اسے تین طلاقیں دی تھیں حلال نہیں ہوتی۔اگر ’’حلالہ‘‘کرنے والے نے مجامعت کر لی ہے تو عورت کو مہر دے کر ان کے درمیان تفریق کر دی جائے۔٭ 4: احرام میں نکاح:حج یا عمرے کے احرام میں اگر کوئی شخص نکاح کر لے تو یہ بھی باطل ہے،تاہم اس کے لیے حکم یہ ہے کہ اگر وہ اس عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے تو حج یا عمرے سے فارغ ہو کر تجدید نکاح کرے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’لَا یَنْکِحُ الْمُحْرِمُ وَلَا یُنْکِحُ‘ ’’محرم نہ اپنا نکاح کرے اور نہ کسی اور کا نکاح کرے۔‘‘[3] لہٰذا ’’نہی تحریمی‘‘ہونے کی وجہ سے یہ نکاح باطل ہے۔ ٭ اس سے وہ نکاح مراد ہے جو شرعاً صحیح ہے،جس میں مرد ہمیشہ کے لیے بیوی کے ساتھ آباد ہونے کے لیے نکاح کرتا ہے،پھر اگر اتفاق سے ان میں بھی نباہ نہ ہو سکے اور طلاق ہو جائے تو عورت عدت گزار کر پہلے خاوند کے ساتھ نئے نکاح میں آ سکتی ہے لیکن اس ارادے میں عارضی نکاح کرنا تا کہ طلاق دلوا کر عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال کیا جائے تو یہ نکاح باطل ہے۔اس طرح عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہو گی(الاثری)۔لہٰذا حلالے کے بعد پہلے خاوند کے ساتھ نیا نکاح کرنے والی عورت کے دونوں نکاح باطل ہوں گے۔واللہ اعلم(ع،ر)٭اگر اس عورت کے ساتھ مجامعت نہیں کی گئی اور پہلے جدائی کر دی گئی ہے تو علماء کے نزدیک وہ شخص عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کا مجاز ہے اور اگر مجامعت کے بعد تفریق ہوئی ہے تو امام مالک رحمہ اللہ و امام احمد رحمہ اللہ کے بقول یہ عورت ہمیشہ کے لیے اس مرد پر حرام ہو گئی ہے۔(مؤلف)
[1] البقرۃ 230:2۔ [2] [صحیح] جامع الترمذي، النکاح،باب ما جاء في المحل والمحلل لہ،حدیث: 1120۔ [3] صحیح مسلم، النکاح، باب تحریم نکاح المحرم وکراھۃ خطبتہ، حدیث: 1409۔